صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
دینِ حق
ابو الاعلیٰ مودودی
مولانا مودودی کی کتاب’اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات‘ کا ایک حصہ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
شہادتِ حق
ساری تعریف اس خدا کے لیے ہے جو کائنات کا تنہا خالق، مالک اور حاکم ہے۔ جو کمال درجہ کی حکمت، قدرت اور رحمت کے ساتھ اس میں فرماں روائی کر رہا ہے۔ جس نے انسان کو پیدا کیا، اس کو علم و عقل کی قوتیں بخشیں ، اسے زمین میں اپنی خلافت سے سرفراز کیا اور اس کی رہنمائی کے لیے کتابیں اتاریں اور پیغمبر بھیجے۔ پھر خدا کی رحمتیں ہوں اس کے ان نیک اور برگزیدہ بندوں پر جو انسان کو انسانیت سکھانے آئے۔ جنہوں نے آدمی کو ان کے مقصدِ زندگی سے خبردار کیا۔ اور اسے دنیا میں جینے کا صحیح طریقہ بتایا۔ آج دنیا میں ہدایت کی روشنی، اخلاق کی پاکیزگی اور نیکی و پرہیزگاری جو کچھ بھی پائی جاتی ہے۔ وہ سب خدا کے انہی برگزیدہ بندوں کی رہنمائی کی بدولت ہے اور انسان کبھی ان کے بارِ احسان سے سبکدوش نہیں ہو سکتا۔عزیزو اور دوستو! ہم اپنے اجتماعات کو دوحصوں میں تقسیم کیا کرتے ہیں ایک حصہ اس غرض کے لیے ہوتا ہے کہ ہم خود آپس میں بیٹھ کر اپنے کام کا جائزہ لیں ۔ اور اسے آگے بڑھانے کے لیے باہم مشورہ کریں ۔ دوسرا حصہ اس مقصد کے لیے ہوتا ہے کہ جس مقام پر ہمارا اجتماع ہو، وہاں کے عام باشندوں کے لیے ہم اپنی دعوت کو پیش کریں ۔ اس وقت کا یہ اجتماع اسی دوسری غرض کے لیے ہے۔ ہم نے آپ کو اس لیے تکلیف دی ہے کہ آپ کو بتائیں کہ ہماری دعوت کیا ہے اور کس چیز کی طرف ہم بلاتے ہیں ۔
ہماری د عوت کا خطاب ایک تو ان لوگوں سے ہے جو پہلے سے مسلمان ہیں ۔ دوسرے ان عام بندگانِ خدا سے جو مسلمان نہیں ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک کے لیے ہمارے پاس ایک پیغام ہے۔ مگر افسوس یہ کہ یہاں دوسرے گروہ کے لوگ مجھے نظر نہیں آتے۔ یہ ہماری پچھلی غلطیوں اور آج کی بے تدبیریوں کا نتیجہ ہے کہ خدا کے بندوں کا یک بہت بڑا حصہ ہم سے دُور ہو گیا ہے اور مشکل ہی سے کبھی ہم یہ موقع پاتے ہیں کہ ان کو اپنے پاس بلا کر یا خود ان کے قریب جا کر وہ پیغام ان کو سنائیں جو اُن کے اور ہمارے خدا نے ہم سب کی رہنمائی کے لیے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے بھیجا ہے۔ بہرحال اب کہ وہ موجود نہیں ہیں ،میں دعوت کے صرف اس حصہ کو پیش کروں گا جو مسلمانوں کے لیے خاص ہے۔
مسلمانوں کو ہم جس چیز کی طرف بلاتے ہیں ، وہ یہ ہے کہ وہ ان ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اد اکریں جو مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان پر عائد ہوتی ہیں ۔ آپ صرف اتنا کہہ کر نہیں چھوٹ سکتے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم نے خدا کو اور اس کے دین کو مان لیا ہے۔ بلکہ جب آپ نے خدا کو اپنا خدا اور اس کے دین کو اپنا دین مانا ہے تو اس کے ساتھ آپ پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں ۔ جن کا آپ کو شعور ہونا چاہیے۔ جن کے ادا کرنے کی آپ کو فکر ہونی چاہیے۔ اگر آپ انہیں اد انہ کریں گے تو اس کے وبال سے دنیا میں چھوٹ سکیں گے نہ آخرت میں ۔
وہ ذمہ داریاں کیا ہیں ؟ وہ صرف یہی نہیں کہ آپ خدا پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر اور یوم آخرت پر ایمان لے آئیں وہ صرف اتنی بھی نہیں ہیں کہ آپ نکاح، طلاق، وراثت وغیرہ معاملات میں اسلام کے مقر رکیے ہوئے ضابطے پر عمل کریں ، بلکہ ان سب کے علاوہ ایک بڑی اور بہت بھاری ذمہ داری آپ پر یہ عائد ہوتی ہے کہ آپ تمام دنیا کے سامنے اس حق کے گواہ بن کر کھڑے ہوں ، جس پر ایمان لائے ہیں ۔ ’’مسلمان‘‘ کے نام سے آپ کو ایک مستقل امت بنانے کی واحد غرض جو قرآن میں بیان کی گئی ہے، وہ یہی ہے کہ آپ تمام بندگانِ خد اپر شہادتِ حق کی حجت پوری کریں ۔
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُٰوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا (البقرہ ۲: ۱۴۳)
اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک بیچ کی امت بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔
یہ آپ کی امت کا عین مقصد وجود ہے جسے آپ نے پور انہ کیا تو گویا اپنی زندگی ہی اکارت گنوا دی۔ یہ آپ پر خدا کا عائد کیا ہوا فرض ہے کیونکہ خدا کا حکم ہے کہ:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاکُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ (المائدہ۵: ۸)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، خدا کی خاطر اٹھنے والے اور ٹھیک ٹھیک راستی کی گواہی دینے والے بنو۔
اور یہ نرا حکم ہی نہیں بلکہ تاکیدی حکم ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَتَمَ شَھَادَۃً عِنْدَہٗ مِنَ اللّٰہِ۔ (البقرہ ۲: ۱۴۰)
اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جس کے پاس اللہ کی طرف سے ایک گواہی ہو اور وہ اسے چھپائے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ اس فرض کو انجام نہ دینے کا نتیجہ کیا ہے۔ آپ سے پہلے اس گواہی کے کٹہرے میں یہودی کھڑے کیے گئے تھے۔ مگر انہوں نے کچھ تو حق کو چھپایا اور کچھ حق کے خلاف گواہی دی اور فی الجملہ حق کے نہیں بلکہ باطل کے گواہ بن کر رہ گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے انہیں دھتکار دیا اور ان پر وہ پھٹکار پڑی کہ:
ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ وَبَآئُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ (البقرۃ ۲: ۶۱)
ذلت وخواری اور پستی و بدحالی ان پر مسلط ہو گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے۔
یہ شہادت جس کی ذمہ داری آپ پر ڈالی گئی ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ جو حق آپ کے پاس آیا ہے، جو صداقت آپ پر منکشف کی گئی ہے، آپ دنیا کے سامنے اس کے حق اور صداقت ہونے پر اور اس کے راہِ راست ہونے پر گواہی دیں ۔ ایسی گواہی جو اس کے حق اور راستی ہونے کو مبرہن کر دے اور دنیا کے لوگوں پر دین کی حجت پوری کر دے۔ اسی شہادت کے لیے انبیاء علیہم السلام دنیا میں بھیجے گئے تھے اور اس کا ادا کرنا ان پر فرض تھا۔ پھر یہی شہادت تمام انبیاء کے بعد ان کی امتوں پر فرض ہوتی رہی۔ اور اب خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ فرض امتِ مسلّمہ پر بحیثیت مجموعی اسی طرح عائد ہوتا ہے جس طرح حضورؐ پر آپ کی زندگی میں شخصی حیثیت سے عائد تھا۔
اس گواہی کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ نوعِ انسانی کے لیے اللہ تعالیٰ نے بازپرس اور جزا و سزا کا جو قانون مقرر کیا ہے اس کی ساری بنیاد اس گواہی پر ہے۔ اللہ تعالیٰ حکیم و رحیم اور قائم بالقسط ہے۔ اس کی حکمت و رحمت اور اس کے انصاف سے یہ بعید ہے کہ لوگوں کو اس کی مرضی نہ معلوم ہو اور وہ انہیں اس بات پر پکڑے کہ وہ اس کی مرضی کے خلاف چلے۔ لوگ نہ جانتے ہوں کہ راہِ راست کیا ہے اور وہ ان کی کج روی پر ان سے مواخذہ کرے۔ لوگ اس سے بے خبر ہوں کہ ان سے کس چیز کی بازپرس ہونی ہے اور وہ انجانی چیز کی ان سے بازپرس کرے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے آفرینش کی ابتدا ہی ایک پیغمبر سے کی اور پھر وقتاً فوقتاً بے شمار پیغمبر بھیجے۔ تاکہ وہ نوعِ انسانی کو خبردار کریں کہ تمہارے معاملہ میں تمہارے خالق کی مرضی یہ ہے۔ تمہارے لیے دنیا میں زندگی بسر کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے، یہ رویہ ہے جس سے تم اپنے مالک کی رضا کو پہنچ سکتے ہو، یہ کام ہیں جن سے تم کو بچنا چاہیے اور یہ امور ہیں جن کی تم سے بازپرس کی جائے گی۔
یہ شہادت جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں سے دلوائی، اس کی غرض قرآن مجید میں صاف صاف یہی بتائی گئی ہے کہ لوگوں کو اللہ پر یہ حجت قائم کرنے کا موقع باقی نہ رہے کہ ہم بے خبر تھے۔ اور آپ ہمیں اس چیز پر پکڑتے ہیں ، جس سے ہم کو خبردار نہ کیا گیا تھا۔
رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌ م بَعْدَ الرُّسُلِ۔ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا (النساء ۴: ۱۶۴)
رسول خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے تاکہ ان کو مبعوث کر دینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت نہ رہے۔
اس طرح اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی حجت اپنے اوپر سے اتار کر پیغمبروں پر ڈال دی اور پیغمبر اس اہم ذمہ داری کے منصب پر کھڑے کر دیئے گئے کہ اگر وہ شہادتِ حق کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کر دیں تو لوگ اپنے اعمال پر خودبازپرس کے مستحق ہوں ، اور اگر ان کی طرف سے ادائے شہادت میں کوتاہی ہو تو لوگوں کی گمراہی و کج روی کا مواخذہ پیغمبروں سے کیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں پیغمبروں کے منصب کی نزاکت یہ تھی کہ یا تو وہ حق کی شہادت ٹھیک ٹھیک ادا کر کے لوگوں پر حجت قائم کریں ورنہ لوگوں کی حجت اُلٹی ان پر قائم ہوئی جاتی تھی کہ خدا نے حقیقت کا جو علم آپ حضرات کو دیا تھا وہ آپ نے ہمیں نہ پہنچایا۔ اور جوصحیح طریقِ زندگی اس نے آپ کو بتایا تھا وہ آپ نے ہمیں نہ بتایا۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اپنے اوپر اس ذمہ داری کے بار کو شدت کے ساتھ محسوس کرتے تھے اور اسی بنا پر انہوں نے اپنی طرف سے حق کی شہادت ادا کرنے اور لوگوں پر حجت تمام کر دینے کی جان توڑ کوششیں کیں ۔
پھر انبیاء کے ذریعہ سے جن لوگوں نے حق کا علم اور ہدایت کا راستہ پایا وہ ایک امّت بنائے گئے اور وہی منصبِ شہادت کی ذمہ داری، جس کا بار انبیاء پر ڈالا گیا تھا، اب اس امت کے حصہ میں آئی۔ انبیاء کی قائم مقام ہونے کی حیثیت سے اس کا یہ مقام قرار پایا کہ اگر یہ امت شہادت کا حق ادا کر دے اور لوگ درست نہ ہوں تو یہ اجر پائے گی اور لوگ پکڑے جائیں گے۔ اور یہ حق کی شہادت دینے میں کوتاہی کرے، یا حق کے بجائے الٹی باطل کی شہادت دینے لگے تو لوگوں سے پہلے یہ پکڑی جائے گی۔ اس سے خود اس کے اعمال کی بازپرس بھی ہو گی اور ان لوگوں کے اعمال کی بھی جو اس کے صحیح شہادت نہ دینے یا غلط شہادت دینے کی وجہ سے گمراہ اور مفسد اور غلط کار رہے۔
حضرات! یہ ہے شہادت حق کی وہ نازک ذمہ داری جو مجھ پر، آپ پر اور ان سب لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو اپنے کو امتِ مسلمہ کہتے ہیں اور جن کے پاس خدا کی کتاب اور ان کے انبیاء کی ہدایت پہنچ چکی ہے۔ اب دیکھیے کہ اس شہادت کے ادا کرنے کا طریقہ کیا ہے۔
شہادتیں دو طرح کی ہوتی ہیں ۔ ایک قولی شہادت، دوسرے عملی شہادت۔ قولی شہادت کی صورت یہ ہے کہ ہم زبان اور قلم سے دنیا پر اس حق کو واضح کریں ، جو انبیاء کے ذریعے سے ہمیں پہنچاہے۔ سمجھانے اور دل نشین کرنے کے جتنے طریقے ممکن ہیں ان سب سے کام لے کر، تبلیغ و دعوت اور نشرواشاعت کے جتنے ذرائع ممکن ہیں ان سب کو استعمال کر کے، علوم و فنون نے جس قدر مواد فراہم کیا ہے وہ سب اپنے ہاتھ میں لے کر ہم دنیا کو اس دین کی تعلیم سے روشناس کریں جو خدا نے انسان کے لیے مقرر کیا ہے۔ فکر و اعتقاد میں ، اخلاق و سیرت میں ، تمدن و معاشرت میں ، کسب معاش اور لین دین میں ، قانون اور نظم عدالت میں ، سیاست اور تدبیر مملکت میں اور بین الانسانی معاملات کے تمام دوسرے پہلوؤں میں ، اس دین نے انسان کی رہنمائی کے لیے جو کچھ پیش کیا ہے اسے ہم خوب کھول کھول کر بیان کریں ۔دلائل اور شواہد سے اس کا حق ہونا ثابت کریں اور جو کچھ اس کے خلاف ہے اس پر معقول تنقید کر کے بتائیں کہ اس میں کیا خرابی ہے۔ اس قولی شہادت کا حق ادا نہیں ہو سکتا جب تک کہ امت مجموعی طور پر ہدایتِ خلق کے لیے اسی طرح فکر مند نہ ہو جس طرح انبیاء علیہم السلام انفرادی طور اس کے لیے فکرمند رہا کرتے تھے۔ یہ حق ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ کام ہماری تمام اجتماعی کوششوں اور قومی سعی و جہد کا مرکزی نقطہ ہو۔ ہم اپنے دل و دماغ کی ساری قوتیں ، اور اپنے سارے وسائل وذرائع اس پر لگا دیں ۔ ہمارے تمام کاموں میں یہ مقصد لازماً ملحوظ رہے اور اپنے درمیان سے کسی ایسی آواز کے اٹھنے کو تو کسی حال میں ہم برداشت ہی نہ کریں جو حق کے خلاف شہادت دینے والی ہو۔
****