صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
دیدۂ گریاں
عبداللہ ناظرؔ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
عشرت وصل نہ دو گریہ کناں رہنے دو
میں جہاں ہوں شب فرقت مری جاں رہنے دو
راز دل کہہ کے بھی حیراں ہوں کہ تم کو شک ہے
مجھ کو جھوٹا نہ کہو ، وہم و گماں رہنے دو
عالم جور و ستم سے ہو توقع کیسی
کوئی شکوہ نہ کرو آہ و فغاں رہنے دو
اپنے خوابوں کی تباہی نہیں دیکھی جاتی
میری امید کو در پردۂ جاں رہنے دو
غور کرنا ہے کرو اپنی رواداری پر
میرے اشکوں کے سمندر کو رواں رہنے دو
بعد از مرگ تمنا کوئی رستہ نہ رہا
بھول جاؤ مجھے ، اقرار زباں رہنے دو
التفات نگہ یار ہے دھوکہ ناظرؔ
کھل گیا بھید مگر بات نہاں رہنے دو
٭٭٭
زندگی کیا ہے بجز ایک سفر کچھ بھی نہیں
گھر ملا ایسا کہ دیوار نہ در کچھ بھی نہیں
حال کچھ ایسا ہے درماندگی صحرا میں
سایۂ گل ہے نہ امید شجر کچھ بھی نہیں
تم جو کہتے ہو کہ دنیا ہے حسیں تو ہو گی
مجھ سے کہتا ہے مرا دیدۂ تر کچھ بھی نہیں
یاد جاناں ہے محبت کی فراوانی بھی
جیسے اب مشغلۂ شام و سحر کچھ بھی نہیں
کیا کہوں گا میں بھلا تم سے مخاطب ہو کر
نہ تبسم ہے نہ ایمائے نظر کچھ بھی نہیں
راز کی بات جو تھی راز میں رہنے دو اسے
جان من کچھ بھی نہیں جان جگر کچھ بھی نہیں
پردۂ ظلمت شب کیسے اٹھاؤں ناظرؔ
جلوہ گر ہے تو سہی کون خبر کچھ بھی نہیں
٭٭٭