صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
دسمبر کے بعد بھی
شہزاد قیس
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
شکنجے ٹُوٹ گئے، ’’زخم‘‘ بدحواس ہوئے
ستم کی حد ہے کہ اہلِ ستم اُداس ہوئے
عدو نے ایسا بہایا لہو کا سونامی
سفینے زندہ دِلوں کے بھی غرقِ یاس ہوئے
حساب کیجیے کتنا ستم ہوا ہو گا
کفن دریدہ بدن، زندگی کی آس ہوئے
کچھ ایسا مارا ہے شب خون، ابنِ صحرا نے
سمندروں کے سَبُو پیاس، پیاس، پیاس ہوئے
نجانے شیر کے بچے اُٹھا لیے کس نے
یہ موئے شہر جو جنگل کے آس پاس ہوئے
خدا پناہ! وہ کڑوا خطاب رات سنا
کریلے نیم چڑھے، باعثِ مٹھاس ہوئے
ہر ایک فیصلہ محفوظ کرنے والو سنو!
جھکے ترازو شبِ ظلم کی اَساس ہوئے
گلابی غنچوں کا موسم اُداس کرتا ہے
کچھ ایسے دن تھے جب اُس گل سے رُوشناس ہوئے
ہر ایک شخص کا سمجھوتہ اپنے حال سے ہے
خوشی سے سانس اُکھڑنا تھا غم جو راس ہوئے
قبائے زخمِ بدن اوڑھ کر ہم اُٹھے قیس
جو شاد کام تھے، محشر میں بے لباس ہوئے
٭٭٭
سنگلاخ چٹانوں کی گھٹا دیکھ رہا ہوں
دھرتی پہ خشم گین خدا دیکھ رہا ہوں
یہ زلزلے کا جھٹکا ہے یا رب نے کہا ہے
اِس شہر میں جو کچھ بھی ہوا، دیکھ رہا ہوں
اِقرا کے مبلغ نے سرِ عرش یہ سوچا
اب تک میں جہالت کی فضا دیکھ رہا ہوں
اِکراہ نہیں دین میں ، نہ جبر روا ہے
تلواروں پہ یہ صاف لکھا دیکھ رہا ہوں
اَوروں کی ہدایت کی دُعا مانگ رہے ہیں
کر سکتی ہے کیا کچھ یہ اَنا دیکھ رہا ہوں
تعمیرِ محلات میں کملا گئے سہرے
جھلسی ہوئی ہاتھوں کی حنا دیکھ رہا ہوں
راس آ گئی دنیا تو بہت کچھ میں کروں گا
اب تک تو فقط آب و ہوا دیکھ رہا ہوں
جو لفظ ابھی آپ کے منہ سے نہیں نکلا
میں آپ کے چہرے پہ لکھا دیکھ رہا ہوں
کب تک کریں گے فیصلے بوسیدہ پرندے
بیداری کی اِک تند ہوا دیکھ رہا ہوں
قیس آخری وقتوں کا خطرناک زمانہ!
جیسا تھا بزرگوں سے سنا، دیکھ رہا ہوں
٭٭٭