صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


دکن میں اردو ادب کا ارتقا

غلام شبیر رانا

ڈاؤن لوڈ کریں 

رڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

اقتباس

         712ء میں جب محمد بن قاسم نے سندھ کے علاقے میں پیش قدمی کی تو بر عظیم میں ایک نئی تہذیب و ثقافت کی آمد کی نوید ملی۔ عربوں کی آمد کے سا تھ  ہی ملتان، اچھ، شورکوٹ اور منصورہ کو اہم علمی مراکز کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ آفتاب اسلام کی  ضیا پاشیوں سے جنوبی ہند میں تاریکیوں کو کافور کرنے کے جس سلسلے کا آغاز ہوا، اس سے گجرات میں بھی روشنی کے عظیم الشان سفر کا آغاز ہوا۔ جنوبی  ہند کی طرح گجرات کے ساتھ عربوں کے تجارتی تعلقات زمانہ قدیم سے چلے آ رہے ہیں۔ گجرات کی اپنی ایک انفرادیت رہی ہے۔ چھٹی صدی قبل مسیح میں گجرات کے کچھ علاقے ایرانی حکومت میں شامل تھے۔ (1)گجرات کو ایک اہم تجارتی مرکز کی حیثیت سے ممتاز مقام حاصل تھا۔ 78687مربع کلو میٹر  پر مشتمل یہ ریاست اپنے سولہ سو کلو میٹر کے ساحلی علاقے کی وجہ سے زمانہ قدیم سے تجارتی مرکز  رہی ہے۔ بحرین، مصر اور خلیج فارس کے ممالک کے ساتھ گجرات کے تجارتی تعلقات کا عرصہ 1000سے 750قبل مسیح پر محیط ہے۔ اس علاقے کی تہذیب  و ثقافت، فنون لطیفہ اور ادبیات پر بیرونی اقوام کے اثرات نمایاں ہیں۔ گجرات کی حدیں سندھ سے ملتی ہیں۔ سندھ پر بنو امیہ نے 39سال حکومت کی اس کے بعد ایک صدی تک اس علاقے میں بنو عباس کی حکومت رہی اس کے بعد بھی یہ علاقہ عربوں کے زیر نگیں رہا۔ مجموعی طور پر سندھ میں عربوں کی حکومت کا عرصہ 282سال ہے۔ (2)تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ 121ہجری میں عباسی خلیفہ متوکل نے عمر بن عبدالعزیز ہباری قریشی کا تقرر بہ حیثیت حاکم سندھ کیا۔ مقامی حالات اور سیاسی نشیب و فراز کے تحت ا س عرب خاندان نے خود مختاری حاصل کر لی اور اس کا تعلق بغداد کی حکومت سے برائے نام تھا۔ اس خاندان کی حکومت نے پڑوسی ریاستوں کے ساتھ نصف صدی تک قریبی تعلقات استوار قائم رکھے۔ سندھ ملتان اور گجرات کے علاقوں میں تہذیبی سطح پر جو  تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں علم و ادب پر اس کے ہمہ گیر اثرات مرتب ہوئے۔ شمالی ہند کے مقابلے میں گجرات اور دکن کے علاقوں میں ان تبدیلیوں کے اثرات زیادہ نمایاں تھے۔ گجرات میں سلطان محمود غزنوی، سلطان معز الدین محمد بن سام غوری، قطب الدین ایبک اور علاؤالدین خلجی کی مہمات کی وجہ سے حالات کی کایا پلٹ گئی۔ سماجی، ثقافتی، تہذیبی  اور معاشرتی سطح پر  ایک نئے نصب العین اور ایک نئی سوچ کی راہ ہموار ہو گئی۔ تخلیقی سوچ پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ ایک منفرد احساساتی کیفیت کو نمو ملی۔ نئے لسانی عمل کا آغاز ہوا جس کے اعجاز سے تخلیق فن کے لیے نئے تجربات، نئے اسالیب اور نئے موضوعات کے بارے میں سوچ پروان چڑھنے لگی۔

        بر صغیر کی جغرافیائی تقسیم کچھ اس طرح کی ہے کہ دریائے  نر مدا(Narmada)اسے دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ میکالہ رینج (Maikala Range)سے نکلنے والا یہ دریا جو مشرق سے مغرب کی  جانب رواں دواں ہے، ہندوستان کے بڑے دریاؤں میں سے ایک ہے۔ اس دریا کی لمبائی1289کلو میٹر ہے اور یہ مدھیہ پردیش، گجرات اور مہاراشٹر سے گزرتا ہے۔ اس دریا کے اس پار کے  جنوبی علاقوں کو دکن کہا جاتا ہے۔ بر صغیر کو شمال اور جنوب کے دو حصوں میں تقسیم کرنے میں دریائے نرمدا کے علاوہ وندھیا رینج (Vindhya  Range)کا سلسلہ ء کوہ بھی جغرافیائی تبدیلیوں کا امین ہے۔ یہ سلسلہ ء کوہ جو مغرب میں گجرا ت تک ہے مشرق میں راجھستان اور مدھیہ پردیش تک  پھیلا ہوا ہے۔ اس کی لمبائی 1086کلو میٹر ہے۔ یہ ایک واضح جغرافیائی تقسیم ہے جس نے ہر شعبہ ء  زندگی پر دور رس اثرات مرتب کیے۔ اگر اردو زبان و ادب کے ارتقا  پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ تاریخی اعتبار سے جنوبی ہند میں اردو زبان نے پہلے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ جنوبی ہند کے علاقوں گجرات اور دکن میں جس وقت اردو شاعری کا آغاز ہوا،  اس وقت شمالی ہند میں اس کے کوئی آثار  موجود نہ تھے۔ دکن میں اردو شاعری کا آغاز بہمنی عہد (1347-1527)میں ہو چکا تھا۔ اس عہد کی ادبی تاریخ، تخلیق کاروں کے سوانح  اور بیش تر ادب پارے ابلق ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہو چکے ہیں۔ بہمنی عہد میں تخلیق ہونے والے اردو زبان کی شاعری کے اولین نمونے جن کی مدد سے اردو شاعری کے ارتقا کی حقیقی صورت حال کے بارے میں آگاہی ملتی ہے، ان کی تعداد بہت کم ہے۔ دکن میں اس زبان میں تخلیق ہونے والی شاعری کے ابتدائی نمونے اس حقیقت کے غماز ہیں کہ اردو شاعری کا ہیولیٰ یہیں سے اٹھا تھا۔ خواہ اسے کسی نام سے پکارا جائے یہ اردو شاعری کا نقش اول ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر گجرات میں اردو شاعری کے اولین نمونوں کو گجری یا گجراتی زبان کی شاعری کے نمونے قرار دیا جاتا ہے۔ اگرچہ ان کی تعداد بہت کم ہے  لیکن اپنی اصلیت کے اعتبار سے یہی اردو شاعری کی ابتدائی شکل ہیں۔ بہنی دور میں دکن کو اہم تجارتی اور علمی مرکز کی حیثیت حاصل رہی تاہم اس عہد کی کوئی قابل ذکر تصنیف اب دستیاب نہیں۔ اس عہد کے ایک ممتاز ادیب عین الدین گنج العلم کا نام مختلف تذکروں میں ملتا ہے لیکن اس کی کسی ایسی تصنیف کا سراغ نہیں مل سکا جو زبان دکنی میں ہو۔ اس دور کی اولین اور اہم ترین تصنیف جس تک ادب کے طلبا کی رسائی  ہے وہ فخر الدین نظامی کی تصنیف ’’کدم راؤ پدم راؤ‘‘ ہے۔ مثنوی ’’کدم راؤ پدم راؤ ‘‘بہمنی خاندان کے نویں بادشاہ  سلطان احمد شاہ ولی بہمنی کے عرصہ ء اقتدار (1421-1434)میں لکھی گئی۔ اس مثنوی کا اہم ترین موضوع سلطان احمد شاہ ولی بہمنی  کے عہد حکومت کے اہم واقعات اور معا ملات سلطنت ہیں۔ اس مثنوی میں سیاسی نشیب و فراز، معاشرتی زندگی کے ارتعاشات اور سماجی مسائل کے بارے میں تاریخ کے مسلسل عمل کو پیش نظر رکھتے ہوئے بڑی مہارت  سے لفظی مرقع نگاری کی گئی ہے۔ اس میں صد آفرینی کی جو کیفیت ہے اس کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ اس عہد کے حالات نے تہذیبی اور ثقافتی  زندگی اور فنون لطیفہ  پر جو اثرات مرتب کیے ان کے بارے میں یہ مثنوی ایک اہم ماخذ ہے۔ 

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

 ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول