صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
دیارِ خواب
ثمینہ راجا ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
بڑی دیر میں یہ خبر ہوئی
بڑی دیر میں یہ خبر ہوئی -- کوئی چال وقت ہی چل گیا
نہ میں با خبر، نہ میں با کمال
میں خوش گماں ۔۔ تھی اسی خیال سے شادماں
کہ مرا ستارہ بھی گردشوں سے نکل گیا،
مگر ایک رات ہوا چلی، تو ہوا کی سانس میں آگ تھی
یہ گماں ہوا کہ لباس پر کوئی شمع جیسے الٹ گئی
مری چھت سے برق لپٹ گئی
مری نیند ایسے جھلس گئی ۔۔ مرا خواب اس لیے جل گیا،
نہ وہ آنکھ میں رہی روشنی ۔۔ نہ وجود میں رہی زندگی
یہ بدن جو آج تپیدہ ہے ۔۔ مری روح اس میں رمیدہ ہے
مرے انگ انگ میں درد ہے
یہی چہرہ جو کبھی سرخ تھا ۔۔ ابھی زرد ہے
مرا رنگ کیسے بدل گیا؟
نہیں دن سے کوئی بھی آس اب
ہے اگر نصیب میں پیاس اب
کسی ابر پارے کی چاہ میں ۔۔ کبھی سر اٹھا کے جو دیکھ لوں
تو وہ گرم بوند ٹپکتی ہے ۔۔ کہ یہ جان تن میں تپکتی ہے
مرا آسمان پگھل گیا،
نہیں غم نہیں ۔۔ کہ ہے میرے ماتھے پہ غم لکھا
مگر اس سے بڑھ کے ستم ہوا
کہ جو حرف مصحفِ دل پہ لکھا تھا عشق نے ۔۔ وہی مِ ٹ گیا
کسی اختیار کا پھیلتا ہوا ہاتھ تھا ۔۔ کہ سمٹ گیا
کوئی اعتبار کا تار تھا کہ جو کٹ گیا
وہ جو اسم تھا کبھی وردِ جاں ۔۔ وہ الٹ گیا
کوئی نقش تھا ۔۔ کسی اور نقش میں ڈھل گیا
**
غزل
گو سایۂ دیں پناہ میں ہوں
زندہ تو خود اپنی آہ میں ہوں
اُس منزلِ خواب کی طلب میں
مدت سے فریبِ راہ میں ہوں
کیا وہ بھی مرا ہی منتظر ہے
اک عمر سے جس کی چاہ میں ہوں
باہر تو لگا ہے سنگِ مر مر
میں دفن مگر سیاہ میں ہوں
پھر شاخ پہ مجھ کو پھوٹنا ہے
غلطاں ابھی خاک و کاہ میں ہوں
غم دینے کو تو نے چُن لیا ہے
خوش ہوں کہ تری نگاہ میں ہوں
کیسے تری حیرتی نہ ٹھہروں
گُم، انجم و مہر و ماہ میں ہوں
جو عشق مثال بن چکا ہے
اُس منزلِ غم کی راہ میں ہوں
**
٭٭٭٭٭٭٭٭