صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
ڈھلوانہ کی ڈائن اور دوسری کہانیاں
کیتھ انڈرسن
ترجمہ محمد اقبال قریشی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
ہوس درگا کا آدم خور جوڑا
وہ آواز بہت دور سے سنائی دی تھی مگر میری سماعت نے اُسے خوب پہچان لیا، وہ شیرنی کی غراہٹ تھی۔ لٹل وڈ نے بھی یقیناً اسے سن لیا تھا اور مجھ سے پہلے ہی دیوانہ وار باہر کی جانب لپکا۔ میں آندھی اور طوفان کی طرح اس کے پیچھے پیچھے باغ میں پہنچا جہاں لیموں کے ایک خاصے پھیلے ہوئے پودے کے پاس خاصی مقدار میں خون جمع تھا اور شیرنی کے خون آلود پنجوں کے نشانات باہر کی طرف جا رہے تھے۔ کچھ دور کیاریاں تھیں جن کے گرد بانس کی بظاہر خاصی مضبوط باڑ تھی۔ شیرنی باڑ توڑتی ہوئی اپنے شکار سمیت وہاں سے فرار ہوئی تھی۔ ہم دونوں تمام تر احتیاطی تدابیر بالائے طاق رکھتے ہوئے باڑ پار کر گئے۔ لٹل وڈ کا بنگلہ بر لبِ جنگل واقع تھا اور ایک پختہ روش بنگلے کی پشت سے جنگل کی طرف جاتی تھی۔ ہم اس روش پر خون کے دھبوں کی راہنمائی میں پھونک پھونک کر قدم اٹھاتے آگے بڑھنے لگے۔ ایک بات کا مجھے رہ رہ کر افسوس ہو رہا تھا کہ شیرنی لٹل وڈ کی بیوی کو میری موجودگی میں اٹھا کر لے گئی تھی اور ہم اسے بچانے کے لیے کچھ بھی نہ کر سکے تھے۔ بیگم لٹل وڈ کی تلاش میں ہمیں زیادہ دور نہ جانا پڑا، وہ ایک خاردار جھاڑی میں اس حالت میں پڑی تھی کہ ان کی گردن غیر فطری انداز میں مڑی ہوئی تھی اور داہنا کاندھا بری طرح چبایا گیا تھا۔ شیرنی نے اس کے علاوہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچایا تھا۔ لٹل وڈ تو بیوی کی لاش دیکھ کر جیسے پاگل ہی ہو گیا اور دیوانوں کی طرح اپنے بال نوچتا ہوا اس سے لپٹ گیا۔ میں نے بڑی مشکل سے اُسے لاش سے الگ کیا کیونکہ مجھے یقین تھا کہ شیرنی نے لاش وہاں یونہی نہیں چھوڑی بلکہ وہ لاش کے ذریعے ہم دونوں کو شکار کرنا چاہتی تھی۔ کسی درندے سے یسی مکاری کی توقع کم ہی کی جاتی ہے لیکن وہ بہرحال ایک آدم خور شیر کی ’رفیقۂ حیات، رہ چکی تھی اور مجھے یقین تھا کہ وہ ہم سے اپنے نر کی موت کا انتقام لے رہی ہے۔ میرا اندازہ کچھ ایسا غلط بھی ثابت نہ ہوا، چند ہی ثانیے بعد عقبی جھاڑیوں سے شیرنی کی غصیلی غراہٹ اُبھری اور میں سرعت کے ساتھ رائفل تیار حالت میں تھامے اُس جانب پلٹ گیا۔ ایک ثانیے کے لیے مجھے شیرنی کی آبگینوں کے مانند دمکتی ہوئی آنکھیں نظر آئیں اور اگلے ہی لمحے وہاں جیسے کچھ بھی نہ تھا۔ تھوڑی دیر بعد جنگل کے وسط سے شیرنی کی غراہٹیں سنائی دیں۔
وہ ایک عجیب لمحہ تھا۔ شیرنی میرے عزیز ترین دوست کی بیوی کی لاش میرے سامنے چھوڑ کر فاتحانہ انداز میں غراتی ہوئی جنگل میں روپوش ہو گئی تھی۔ دل مجھے شیرنی کے تعاقب میں جانے پر اکسا رہا تھا جبکہ دماغ کا فیصلہ کچھ اور تھا۔ دوسری طرف میرے ساتھی لٹل وڈ کی حالت اس قدر خراب تھی کہ میں اسے ساتھ لے کر آگے جا سکتا نہ ہی پیچھے چھوڑ سکتا تھا۔ لہٰذا اس وقت میں نے وہی کیا جو ہم دونوں کے حق میں بہتر تھا۔
بیگم لٹل وڈ کی تدفین کے دو ہفتے بعد لٹل وڈ کی حالت کسی حد تک سنبھلی تو اس نے مجھے شیرنی کے تعاقب میں جانے پر تیار کیا۔ میں خود بھی یہی چاہتا تھا کہ جلد از جلد اس آدم خور کو ٹھکانے لگا دوں مگر کوئی نادیدہ قوت مجھے اس کے تعاقب میں جانے سے روک رہی تھی۔ دوسری طرف بیگم لٹل وڈ کے بعد شیرنی نے کسی اور کو شکار بھی نہ کیا تھا۔ عین اُسی روز شام کو موسلادھار بارش شروع ہو گئی۔ اس وقت میں اور لٹل وڈ باورچی خانے میں کھانے کی میز پر بیٹھے تھے اور ہمارا موضوعِ گفتگو وہی آدم خور شیرنی تھی۔ لٹل وڈ کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ وہ کیسے اپنے غم و غصے کا اظہار کرے جبکہ میں چاہتے ہوئے بھی بیگم لٹل وڈ کی یادوں کو ذہن سے محو نہیں کر پا رہا تھا۔ لٹل وڈ کے ہاتھ میں شراب کی بوتل تھی جس سے وہ بار بار گھونٹ بھر رہا تھا، بات بات پر وہ اپنی مرحوم بیوی کو آوازیں دینے لگتا، مجھ سے اس کی یہ حالت دیکھی نہ جا رہی تھی لیکن میں اس کا غم ہلکا کرنے کے لیے کچھ بھی تو نہیں کر سکتا تھا۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں وہ کثرتِ شراب نوشی کے باعث حواس نہ کھو بیٹھے اور پھر وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد لٹل وڈ نے شراب کی بوتل سامنے والی دیوار پر دے ماری اور باورچی خانے کی دراز سے ریوالور نکال کر ادھ کھلے دروازے سے باہر جھانکنے لگا۔
’’آج میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا‘‘ وہ گلا پھاڑ کر یوں چیخا جیسے شیرنی اس کی آواز سن رہی ہو۔
میں نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے ریوالور لے لیا اور اُسے واپس لا کر اپنے ساتھ بٹھاتے ہوئے کہا ’’فکر نہ کرو میرے دوست کل ہم ہر حال میں اس منحوس آدم خور کا قصہ پاک کر دیں گے۔‘‘ اس نے میری بات کا کوئی جواب نہ دیا اور میری گود میں سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔
اگلی صبح ہم دونوں کیل کانٹے سے لیس ہو کر جنگل کے وسط میں واقع اس تالاب تک گئے جہاں ہم نے آدم خور شیر ہلاک کیا تھا۔ تالاب کے کنارے بہت سے جانوروں کے پنجوں کے نشانات تھے جن میں مجھے شیرنی کے پنجوں کے تازہ نشانات بھی دکھائی دیے۔ جب میں شیرنی کے پنجوں کے نشانات دیکھ رہا تھا تو مجھے اچانک خطرے کا احساس ہوا۔ بارہا خطرات کا مقابلہ کرتے رہنے اور ارادتاً حواس کو جلا دینے کے بعد چند انسانوں میں خطرے کی بو سونگھ لینے کی قدرتی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔ کئی شکاری مہمات سر کر لینے کے بعد میرے اندر بھی ایسی ہی پوشیدہ حس بیدار ہو گئی تھی جو خطرات کے موقع پر مجھے پیشگی خبردار کر دیا کرتی تھی۔ خطرے کا احساس ہوتے ہی میں نے لٹل وڈ کو ہوشیار رہنے کا اشارہ کیا اور رائفل تیار حالت میں تھامتے ہوئے چاروں طرف نظریں دوڑانے لگا۔ کچھ دور جھاڑیوں کا ایک خاصا طویل سلسلہ تھا۔ میری نگاہیں بار بار ان جھاڑیوں کی طرف اُٹھ رہی تھیں حتیٰ کہ میں ہزار کوشش کے باوجود اپنی نگاہیں ان پر سے ہٹا نہیں پا رہا تھا۔ میں نے لٹل وڈ کو عقب میں رہنے کی ہدایت کی اور دبے قدموں جھاڑیوں کے قریب پہنچ کر رک گیا۔ میرے قدموں کے قریب ہی کچی مٹی میں شیرنی کے پنجوں کے تازہ اور واضح نشان نمایاں تھے۔ اس کا مطلب تھا کہ میری چھٹی حس کی نشان دہی غلط نہ تھی۔ میں نے فوراً لٹل وڈ کو خبردار کیا۔ شیرنی کے پنجوں کے نشانات دیکھ کر اُس کی حالت یک دم اُس بچے کی سی ہونے لگی جسے اس کا من پسند کھلونا ہاتھ آ گیا ہو۔ اس کا بس نہ چلتا تھا کہ جھاڑیوں میں گھس کر شیرنی سے دو دو ہاتھ کر لے۔ میں نے بڑی مشکل سے اسے ایسا کرنے سے باز رکھا۔ ان تازہ نشانات اور خطرے کے احساس کے پیش نظر مجھے یقین ہو گیا کہ شیرنی کہیں قریب ہی گھات لگائے بیٹھی ہے۔ اس صورت میں اندھا دھند آگے بڑھنا بلاشبہ خطرناک تھا۔ میں نے لٹل وڈ کو آمادہ کر لیا کہ وہ ایک قریبی درخت پر چڑھ جائے اور اوپر سے میری نگرانی کرے ساتھ ہی میں نے اسے یہ بھی بتا دیا کہ اگر شیرنی مجھ پر حملہ آور ہو تو وہ میری پروا کیے بغیر بلا جھجک گولی چلا دے۔ اس نے تھوڑی دیر تک سوچتے رہنے کے بعد سر کو اثبات میں جنبش دی اور ایک قریبی درخت پر چڑھ گیا۔
میں خاصی دیر تک جھاڑیوں کے باہر کسی بھی قسم کی آواز سننے کا منتظر رہا مگر چرند پرند کی ہلکی پھلکی آوازوں کے علاوہ کوئی آواز میری سماعت سے نہ ٹکرائی۔ میں نے لٹل وڈ کو اشارے سے پوچھا کہ کیا اسے شیرنی نظر آئی مگر اس کا جواب نفی میں تھا۔ اس کا ایک ہی مطلب تھا کہ شیرنی ہماری بو پا کر وہاں سے رخصت ہو چکی تھی۔ میں نے لٹل وڈ کو درخت سے اُترنے کا اشارہ کیا اور اس کے ہمراہ شیرنی کے پنجوں کے نشانات کا تعاقب کرتے ہوئے جھاڑیاں پار کر گیا۔ ہمارے سامنے وسیع و عریض جنگل تھا مگر دور دور تک شیرنی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ وہ لمحہ ایسا تھا کہ میں چاہتے ہوئے بھی واپس نہیں پلٹ سکتا تھا۔ ہم دونوں کو بہر صورت شیرنی کے تعاقب میں جانا تھا۔
لٹل وڈ کا بھی یہی خیال تھا۔ ہم جنگل کے وسط میں پہنچے تھے کہ ایک جھنڈ میں سے ہلکی سی سرسراہٹ سنائی دی پھر اچانک مجھے داہنی طرف ایک سایہ اپنی سمت حرکت کرتا نظر آیا، وہ بلاشبہ شیرنی تھی۔ وہ بڑا نازک لمحہ تھا، شکار بالکل ہمارے سامنے تھا اور ذرا سی بے احتیاطی سارا کھیل بگاڑ سکتی تھی۔ پھر وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا، اس سے پہلے کہ میں لٹل وڈ کو روک پاتا اس نے جوش میں آ کر آگے کی سمت جھکتے ہوئے شیرنی پر گولی چلا دی۔ گولی شیرنی کے بائیں کاندھے میں لگی اور وہ دھاڑتی ہوئی جنگل میں غائب ہو گئی۔ یہ دیکھ کر لٹل وڈ کی مایوسی کی انتہا نہ رہی، ہم دونوں خون کے دھبوں کی راہنمائی میں شیرنی کے تعاقب میں روانہ ہو گئے۔ آگے چل کر گھنی خاردار جھاڑیوں کا طویل سلسلہ شروع ہو گیا، خون کے دھبوں سے ہم نے اندازہ لگایا کہ شیرنی نے وہ جھاڑیاں کسی نہ کسی طرح پار کر لی تھیں بہرحال ان میں سے ہمارا گزرنا ممکن نہ تھا۔ شیرنی کے تعاقب میں جانے کا کوئی دوسرا راستہ اس وقت ہمیں نظر نہ آیا لہٰذا ہم ہاتھ ملتے ہوئے واپس لوٹ گئے۔
٭٭٭