صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
دولتِ بے زوال
و
برکتِ حال و مآل
مفتی سید عبد الفتاح حسینی قادری گلشن آبادی
ترجمہ و ترتیب :محمد اَفروز قادری چریاکوٹی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
مقدمہ
الحمد للّٰہ رب العالمین، والعاقبۃ للمتقین، والصلوٰۃ والسلام علی رسولہ وحبیبہ سیدنا محمد وعلی آلہ وأصحابہ وأتباعہ أجمعین۔ أما بعد !
فقیر حقیر سراپا تقصیر مفتی سیدعبد الفتاح
الحسینی القادری عرف سید اشرف علی گلشن آ با دی برادران اسلامیہ کی خدمت
میں التماس کرتا ہے کہ ایک روز جناب عمدۃ العلما والسا لکین حضرت استاد نا
و مرشد نا مو لو ی عبدالقیوم نقشبندی مجددی کابلی رحمۃاللہ علیہ کی خدمت
میں فقیہ ابو اللیث سمر قندی رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب ’بستان العارفین کا
مطالعہ کر رہا تھا، ا س میں یہ حدیث شریف پڑھنے میں آئی :
من احتَجَتم یوم الأربعاء والسّبت فأصابہ الألم فلا یلومن إلا نفسَہ۔
یعنی جس نے بدھ اورسنیچرکے دن پچھنے لگوائے، پھر درد پیدا ہو گیا تو اپنی جان کو روئے، یعنی خود کو ملامت کرے۔
بندے نے عرض کی : الیوم یوم اللّٰہ۔ یعنی سب دن خدا کے بنائے ہوئے ہیں، یہ تخصیص کس سبب سے ہوتی ہے؟۔
حضرت نے فرمایا: سعدونحس اور نیک و بد سب حق تعالیٰ نے پیدا کیے ہیں، لیکن خیر و شر کا اِختلاف بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہی بتایا ہے، اور بحکم مَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوَی بغیر وحی و اِلہام حضر ت رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اولیائے کرام کچھ نہیں فرماتے۔
چنانچہ حکایت ہے کہ ایک تونگر تاجر کی عادت تھی کہ ہمیشہ بدھ کے روز سال میں دو تین مرتبہ پچھنا لگواتا تھا۔ کسی طالبِ علم نے اس کو اس کام سے منع کیا،توتا جر نے کہا: یہ فقط وہم ہے، خدا نے سب دن پیدا کیے ہیں، الغرض !چند روز کے بعد اس کی دولت میں زوال آیا، اور ایک ایسا مرضِ شدید لا حق ہو ا کہ حکما سے علاج دشوار ہوا۔
اس تا جر نے شب و روز درودِ شفا کا ورد کر نا شروع کیا، خواب میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا کہ اس سے منھ پھیر لیا ہے۔ تا جر نے عرض کی کہ مجھ سے کیا تقصیر ہوئی جو آپ خفا ہیں۔
حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ہمارے دین اسلام کے علما و اولیا نے جو عمل کرنے یا نہ کرنے کو فرمایا اور اس کی تاثیر بیان کی، وہ سچ ہے۔ تو محض اپنی ضد سے اس پر عمل نہیں کرتا ہے، تو یہ تیرے افعال کی شامت ہے کہ دولت وتندرستی کو زوال آیا اور مفلسی و بیماری نے منہ دکھا یا۔ فجر کو تاجر اٹھا توبہ کی اور درود شریف کی برکت سے ہدایت کی راہ ملی۔
جب یہ حکایت حضرت مولو ی صاحب علیہ الرحمہ نے بیان کی، آبِ دیدہ ہو گئے، راقم کے اندر بھی رقت پیدا ہوئی، پھر فرمایا: کتاب ’إظہا ر الدیسار والأعسار دیکھو کہ اس میں جملہ آدابِ اسلام احادیث کی روشنی میں بیان کیے گئے ہیں۔
راقم نے کئی مسائل احادیث اور اقوالِ بزرگانِ دین کے ساتھ اس میں سے لکھ لیے، معلوم ہوا کہ ہر شخص دارین کی تونگری چاہتا ہے، اور درویشی ومفلسی سے بیزار ہو تا ہے، لیکن بحکمِ الإنسان حریصٌ فیما مُنِعَ(۱) کام ایسا کرتا ہے جس کے سبب تونگری کی برکت جاتی ہے، اور مفلسی کی شامت در پیش آتی ہے۔ نیز اس شخص کو معلوم نہیں ہوتا کہ بدبختی کدھر سے آئی اور نیک بختی کہاں گئی۔
۔۔۔۔
(۱) یعنی انسان کی فطرت میں یہ بات رکھ دی گئی ہے کہ وہ منع کردہ چیزوں کو کرنے کا حریص ہوتا ہے۔
۔۔۔۔
اُمید ہے کہ اس کے پڑھنے اور عمل کرنے سے درویش تونگر ہو جائے گا اور تونگر اپنی دولت بچائے گا، اور وہ کام نہ کرے گا جس سے مفلسی آئے، اور تونگری جائے۔ تُعْرَفُ الأشْیَآءُ بِأضْدَادِھَا(۲) کی رو سے دارین کی تونگر ی بر کت و اقبال ہے، اور دارین کی مفلسی نکالِ جنجال (یعنی وبال کا جال) ہے۔
اس لیے راقم نے مسلمان بھائیوں کے فائدے کے واسطے بوقت مطالعہ تفسیرو حدیث اور فقہ و وعظ کی کتب سے سعادت و شقاوت پہچاننے کے اقوال و اعمال استنباط (چھانٹ) کر کے یہ رسالہ لکھا، اور (تفسیر و حدیث و فقہ وغیرہ ہر قسم کی) عربی عبارت و اشعار کو ایک سو مسائل اور ایک سو فوائد میں بالترتیب جمع کیا۔ اور دوسرے باب میں برکت کے وہ عمل و فوائد رقم کیے جن سے حال ومستقبل میں تونگری حاصل ہو جائے۔ اس کتاب کا نام میں نے ’دولت بے زوال و برکتِ حال و مآل‘ رکھا۔ وھوحسبي ونعم الوکیل، نعم المولی ونعم النصیر۔
٭٭٭