صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
ریاست اسلامی کا مجوزہ دستور
نامعلوم
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
عمومی احکامات
دفعہ نمبر ۱۔ اسلامی عقیدہ ہی ریاست کی بنیاد ہے ، وہ اس طرح کہ ریاست کی ساخت، اس کے ڈھانچے ، اس کے محاسبہ یا کوئی بھی چیز، جو ریاست سے متعلق ہو، وہ اسلامی عقیدے ہی کی بنیاد پر ہو گی۔ دستور اور قوانینِ شرعیہ کی بنیاد بھی یہی عقیدہ ہے۔ دستور اور قوانین سے متعلق صرف اس چیز کو قبول کیا جائے گا، جواسلامی عقیدے سے ہو۔
دفعہ نمبر ۲۔ دار الاسلام وہ ملک ہے جہاں اسلامی احکامات نافذ ہوں اور اس کی امان اسلام کی امان کی وجہ سے ہو۔ دار الکفر وہ ہے جہاں کفریہ نظام نافذ ہو یا اس کی امان اسلام کے بغیر ہو۔
دفعہ نمبر۳۔ خلیفہ متعین شرعی احکامات کی تبنی کرے گا جن کو دستور اور قوانین بنایا جائے گا۔ خلیفہ جب کسی حکمِ شرعی کی تبنی کرے تو صرف یہی حکم حکمِ شرعی ہو گا اور اس پر عمل کرنا فرض ہو گا۔ یہ اسی وقت نافذ العمل قانون ہو گا جس پر عمل درآمد رعایا میں سے ہر فرد پر ظاہراً و باطناً فرض ہو گا۔
دفعہ نمبر۴۔ خلیفہ عبادات میں سے سوائے زکوٰۃ و جہاد کے کسی متعین حکمِ شرعی کی تبنی نہیں کرے گا۔ نہ وہ عقیدۂ اسلامیہ سے متعلقہ افکار میں سے کسی فکر کی تبنی کرے گا۔
دفعہ نمبر۵۔ وہ تمام افراد، جو اسلامی ریاست کی شہریت کے حامل ہوں ، انہیں حقوق ملیں گے اور انہیں اپنے شرعی فرائض پورے کرنے ہوں گے۔
دفعہ نمبر۶۔ ریاست کے لیے بالکل جائز نہیں کہ وہ اپنے شہریوں کے مابین حکمرانی، قضاء (فیصلوں )اور معاملات کی نگرانی اور دوسرے مسائل میں کسی قسم کا امتیازی سلوک کرے۔ بلکہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے تمام افراد کو رنگ، نسل اور دین کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک ہی نظر سے دیکھے۔
دفعہ نمبر۷۔ ریاست ان تمام افراد پر، جو اسلامی ریاست کے شہری ہوں ، چاہے وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم، حسبِ ذیل طریقے سے اسلامی شریعت نافذ کرے گی :
الف۔ مسلمانوں پر بغیر کسی استثناء کے تمام اسلامی احکامات نافذ کرے گی۔
ب۔ غیر مسلم جیسا اعتقاد رکھیں اور جس طرح چاہیں ، عبادت کریں، ان سے بازپرس نہیں کی جائے گی۔
ج۔ مرتدوں پر مرتدین کے اسلامی احکامات لاگو کرے گی، بشرطیکہ وہ خود مرتد ہوئے ہوں۔ لیکن اگر وہ مرتدین کی اولاد ہوں اور پیدائشی غیر مسلم ہوں تو ان کے ساتھ غیر مسلمانوں کاسا معاملہ کیا جائے گا۔ یعنی صورت حال کو دیکھ کر، کہ وہ مشرک ہیں یا اہل کتاب۔
د۔ غیر مسلموں کے ساتھ کھانے پینے اور لباس کے معاملات میں احکامِ شرعیہ کی حدود میں رہتے ہوئے ان کے دین کے مطابق معاملہ کیا جائے گا۔
ھ۔ غیر مسلموں کے درمیان شادی و طلاق کے معاملات ان کے ادیان کے مطابق نمٹائے جائیں گے اور مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلموں کے یہ معاملات اسلامی احکامات کے مطابق سنوارے جائیں گے۔
و۔ باقی تمام احکامِ شرعیہ اور سب امورِ شرع، مثلاً معاملات، عقوبات، بینات(گوا ہوں )، نظامِ حکومت اور اقتصادیات وغیرہ کو تمام رعایا پر، خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم، ریاست برا بری کی بنیاد پر نافذ کرے گی۔ اسی طرح معاہدین (اہلِ معاہدہ )مستامنین (امن میں آنے والے )اور ہر اس شخص پر، جو اسلامی ریاست کے زیر سایہ رہتا ہے ، ریاست ان احکامات کو نافذ کرے گی۔ البتہ سفراء اور ایلچیوں کے ساتھ ان کے ممالک کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے مطابق معاملہ کیا جائے گا۔
دفعہ نمبر۸۔ عربی زبان ہی چونکہ اسلام کی زبان ہے ، اس لیے ریاست صرف عربی زبان استعمال کرے گی۔
دفعہ نمبر۹۔ اجتہاد فرضِ کفایہ ہے ، ہر مسلمان کو اجتہاد کا حق حاصل ہے ، بشرطیکہ اس میں اجتہاد کی شرائط پائی جاتی ہوں۔
دفعہ نمبر۱۰۔ اسلام کے بارے میں تمام مسلمان جوابدہ ہیں ، اس لیے اسلام میں رجالِ دین نہیں ہوتے۔ چنانچہ ریاست کا فرض ہے کہ جب وہ مسلمانوں کے اندر اس قسم کے رجحانات محسوس کرے تو انہیں روک دے۔
دفعہ نمبر۱۱۔ ریاست کا اصل کام اسلامی دعوت کا علمبردار بننا ہے۔
دفعہ نمبر۱۲۔ کتاب اللہ، سنت رسول اللہؐ ، اجماعِ صحابہ ؓ اور قیاس ہی احکامِ شرعیہ کے لیے معتبر ادلۃ ہیں۔
دفعہ نمبر۱۳۔ اصل بری الذمہ ہونا ہے ، عدالتی حکم کے بغیر کسی (شخص )کو سزانہیں دی جائے گی۔ کسی کو عذاب دینا بالکل جائز نہیں اور جو اس کا مرتکب ہو گا، اسے سزادی جائے گی۔
دفعہ نمبر۱۴۔ بنیادی چیز احکامِ شرعیہ پر عمل کرنا ہے ، لہٰذا شرعی حکم معلوم کیے بغیر کوئی کام نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح اشیاء میں اصل اباحت (جواز)ہے ، یہاں تک کہ حرام ہونے کی کوئی دلیل موجود نہ ہو۔
دفعہ نمبر۱۵۔ حرام کا وسیلہ (ذریعہ )بھی حرام ہو گا جب غالب گمان ہو کہ وہ حرام تک پہنچائے گا۔ اگر حرام تک پہنچانے کا صرف ڈر ہو تو وہ حرام نہیں ہو گا۔
٭٭٭٭٭٭