صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
دستنبو
مرزا اسداللہ خان غالبؔ
ترجمہ: رشید حسن خان
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
دستنبو
عظیم
طاقت کا مالک ہے وہ شہنشاہ جس نے نو اسمانوں کو بلند کیا اور سات ستاروں
کو روشنی عطا کی۔ بڑا صاحب علم ہے وہ خدا جس نے جسم کو روح سے سرفراز کیا
اور انسان کو حکمت و انصاف (کی دولت) بخشی۔ جس نے مادے اور وسائل کی مدد
کے بغیر سات (زمینوں) اور نو (آسمانوں) کو پیدا کیا۔ مشکل اور آسان کاموں
کا بن جانا (اس سلسلے میں راستے کی) معمولی یا غیر معمولی رکاوٹوں کا دور
ہونا (ان سب امورکو) ان کی رفتار و اثرات سے متعلق کیا۔
(خدا
نے) ان ضابطوں کو اس طرح مرتب نہیں کیا کہ یہ اجرام جو باہم متضاد ہیں
(مختلف صفات رکھتے ہیں) ایک دوسرے سے دور دور رہتے ہیں اور (کبھی) ایک جگہ
جمع ہو جاتے ہیں، طاقت کے باوجود فرماں برداری نہ کریں اور قوت کارفرمائی
اور صلاحیت تاثیر کے باوصف فرمان (قدرت) کے تابع نہ ہوں۔
"تم
آسمانوں اور ستاروں کے راز (جاننے)کا کیا دعویٰ کرتے ہو، تم تو ابھی تک چت
اور پٹ کے فرق سے واقف نہیں ہو۔ ستاروں کی پرستش نہ کرو (ان کو دنیا کے
کاموں میں مطلق صاحب اختیار نہ مانو) کیونکہ ایک افتاب (خدا) بھی موجود
ہے، جس کی روشنی (کائنات کی تمام) ظاہر و پوشیدہ چیزوں کو حلقے میں لیے
ہوۓ ہے۔
اگر زہرہ و مشتری میں (سعد ہونے کے لحاظ سے) فائدہ
پہنچانے کی کچھ صلاحیت ہے(تو ہو) اور زحل و مریخ میں (نحس ہونے کے اعتبار
سے) نقصان رسانی کی خاصیت ہے تو ہوا کرے، جو لوگ واقف حقیقت ہیں، وہ جانتے
ہیں کہ نحوست و برکت اور مسرت وغم کا سرچشمہ کہاں ہے۔ ستارے ایک عادل
شہنشاہ کے ملازم ہیں۔ (اس) عدالت کے سپاہی کبھی حلقۂ انصاف سے قدم باہر
نہیں نکالتے ہیں۔ مل جل کر کام کرنے اور کارسازی (تعمیل حکم) کے علاوہ ان
کو کسی چیز سے تعلق نہیں۔ اگر ان میں سے کسی نے سخت گیری کے (وسیلے سے)
الجھے ہوۓ کاموں کو سلجھانا چاہا، یا کسی نے نرمی کے (ذریعے) سے ہنگامۂ
زندگی کی رونق افزائی کی، تو یہ سب (زندگی کو) بنانے سنوار نے اور (مشکلوں
کو حل کرنے) کے مختلف انداز ہیں، ظلم یا بے نیازی نہیں۔
مغنی
ساز کے تاروں پر مضراب سے ضرب لگاتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس سے اس کا مقصد
کیا ہوتا ہے۔ مسرتیں مصیبتوں کے پردے میں چھپی ہوئی ہیں۔ دھوبی غصے میں
آکر کپڑے کو پتھر پر نہیں مارتا۔
درحقیقت کسی چیز کا فنا ہونا
کسی دوسری چیز کے وجود کا سبب بنتا ہے۔ حقیقتاً آرام و تکلیف اور بلندی
وپستی ساری چیزیں (خدا کی طرف سے) انسان کو ملتی ہیں۔ اس لیے وہ سب فائدے
اور بہبودی کا وسیلہ بن جاتی ہیں، اور ان سے مسرتیں حاصل ہوتی ہیں۔ دولت
مند کسی محتاج کو چند پیسے دے یا ہزاروں روپے، ریشم کے تھان عطا کرے یا
کمبل (ہر صورت میں) سخاوت اور درویش پروری ہے۔ قدرت کے عطیات کو اچھائی
برائی کے خانوں میں تقسیم کرنا یا کمی بیشی (کا الزام رکھنا) کج خیالی و
کم فہمی ہے۔
***