صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
دستخط اور چہرے
مختلف ادباء کے مضامین مشرف عالم ذوقی کے فکشن کے فن پر
دو جلدوں میں
ڈاؤن لوڈ کریں
جلد اول
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
جلد دوم
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
ذوقی کا___پوکے مان کی دنیا۔ اقبال جمیل
پچھلے
دس سالوں کے دوران اردو میں لکھے گئے ناول اور افسانوں میں دو، رجحانات
نمایاں طور پر سامنے آئے ہیں۔ پہلے میں سماجی فکر اور انسانی جذبات و
احساس کو ملحوظِ خاطر رکھا گیا ہے۔ علاوہ ازیں موجودہ عہد کے سماجی،
اقتصادی اور سیاسی مسائل پر سنجیدگی سے سوچنے کی سعی کی گئی ہے تو دوسرا
رجحان شاید آج کے (Consumerism) صارفین تحریک سے پیدا ہوا ہے _____ جہاں
پر فرد کے مفادات کو سماجی مفادات پر فوقیت حاصل ہے ____ آج کے ادیبوں کے
پاس فرار کا بہت آسان راستہ موجود ہے ____ ’’معاشرہ‘‘ ملک اور دنیا کے
مسائل اُن کے نزدیک بہت بڑی بڑی باتیں ہیں جن کے بارے وہ کر ہی کیا سکتے
ہیں۔ ایک دلچسپ اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ آج کا ادیب بھی اسی صارفی تہذیب کا
حصہ بن چکا ہے۔ یقین نہ ہو تو حالیہ انتخاب کا جائزہ لیجئے ____ اردو کے
کئی شاعر اور ادیب منفعت حاصل کرنے کے لئے فرقہ پرستوں کے سیاسی کھیل میں
شامل ہونے سے بھی نہیں ہچکچائے۔
اردو ادب اور ہماری قوم کی یہ خوش
قسمتی ہے اس دوسرے رجحان پر چلنے والوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔ دورِ
حاضر میں ، خاص طور سے بابری مسجد کے انہدام کے بعد سے اردو میں لکھنے
والوں کی اکثریت کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ مسائل سے منہ موڑنے ، یا ان سے
بھاگنے سے نہ ہی ان کا حل ڈھونڈا جا سکتا ہے اور نہ ہی اپنی جان بچائی جا
سکتی ہے۔ گجرات کے فسادات نے اس احساس کو اور تقویت دی۔ اسی لئے اس دور
میں تحریر کئے گئے بہت سارے ناول اور افسانے سماجی اور سیاسی مسائل پر
بغیر کسی ہچکچاہٹ یا تکلف کے اپنی بات کھل کر کہتے ہوئے نظر آتے ہیں ____
اردو
فکشن میں یہ تبدیلی خوش آئند ہے۔ مگر پڑھے لکھے اور حساس قاری کی بدقسمتی
یہ ہے کہ اردو میں ناول اور افسانے لکھنے والوں میں سے بڑی تعداد حالات
حاضرہ پر نہ تو تنقیدی نظر رکھتی ہے اور نہ ہی نئی تکنیکی ایجادات، سماجی
اور سیاسی رجحانات پر اُس کے اثرات کو سمجھنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ اردو کے
بیشتر ادیب آج بھی ان حقائق کا جائزہ پرانی عینک سے ہی لگاتے ہیں۔ وہ نئے
دور کو اس کی خوبیوں اور خرابیوں کے ، ایک متوازن سوچ کی بنیاد پر سمجھنے
سے قاصر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو فکشن میں نسلوں کے فرق اور تضاد پر
مکالمہ بہت کم پایا جاتا ہے ____ ذوقی کے یہاں اس احساس کی شدت زیادہ ہے۔
وہ موجودہ عہد کے تناظر میں سوچ سمجھ اور ٹھہر کر اپنی رائے پیش کرتے ہیں
____
’’یہاں جنگ برائے جنگ ہوتی ہے۔ آدمی کو بچانے کے لئے
اربوں ، کھربوں کے میزائل خرچ کر دیئے جاتے ہیں ___ اور لاکھوں آدمیوں کو
مار کر لاکھوں آدمیوں کے بچنے کا جشن منایا جاتا ہے ___
ایک انسانی
ماڈل میکاؤف ’کلون‘ کے چیمبر میں تیار ہوتا ہے۔ ایک بھیڑ ’’ڈولی‘‘ ممیاتی
ہوئی آپ کے سامنے آ جاتی ہے ___ ایک ہوائی جہاز، ورلڈ ٹریڈ ٹاور کو چھیدتا
ہوا گزر جاتا ہے ___ اور چند شیو سینک 14 فروری، ویلنٹائن ڈے یعنی محبت کے
دن پر پابندی لگانے کے لئے نکل پڑتے ہیں۔
الجھاوا ہی الجھاوا ہے ___
انتہائی خطرناک ترقی، انتہائی خطرناک پچھڑا پن___
سوپر
ہائی وے ___ اور دوسری طرف زوال یا ’پتن‘ کی کھائی___ ڈاکٹر ’جینوم‘ کے
ذریعہ انسان کو مرنے سے روکنے کی تیاری کرتے ہیں اور ہم ’دلت وِمرش‘ کے
نام پر اپنی ساری Energyصرف کر رہے ہوتے ہیں ___
To be and not to be, is the question
شیکسپیئر
زندہ ہوتا تو کچھ اور کہتا ___اور شاید نہیں کہتا۔ ہونے اور نہیں ہونے کے
بیچ یہ دنیا پھنس گئی ہے ___ ہم مارس پر جا رہے ہیں اور دوسری طرف موہن
جوداڑو کے ٹوٹے حصہ کو جوڑنے کے لئے مٹّیاں ڈھونڈھی جا رہی ہیں۔
ہم
ایک بہت بڑے بازار میں الجھ کر بونے بن گئے ہیں۔ ایک بہت بڑا بازار جو
ہماری سنسکرتی، ہماری جڑوں سے الگ ہے ___ ہم اس بازار کا حصہ بننا چاہتے
ہیں ___ مگر پری ہسٹارک ڈائنا سور بن کر___ پانچ کروڑ سال پیچھے جا کر ہم
اس بازار میں اپنی گھس پیٹھ جمانا چاہتے ہیں۔
متھ ٹوٹ رہے ہیں ___
نئے اصول بن رہے ہیں ___ اور ہیلپ لائنس کی تعداد بڑھ رہی ہے ___ ہمارے
بچے میل اسٹریپرس بننے کی تیاری کر رہے ہیں ___ یعنی نیا ایڈونچر ___یہ
دور دراصل ہمارے لئے نہیں سگمنڈ فرائیڈ کے لئے تھا___ وہ دیکھتا کہ 40
پار، کے ایک باپ کی کیفیت کیا ہوتی ہے ___ ایک باپ جو اپنے بچو ں کے آئینے
میں خود کو، اُن کی اپنی آزادی کے ساتھ اُتار تو لیتا ہے۔ مگر اُس کا
پچھڑا پن برقرار رہتا ہے ___ اور وہ وہی رہتا ہے اندر سے۔ پری ہسٹورک
ڈائنا سور___‘‘
مشرف عالم ذوقی کا تازہ ترین ناول ’’پوکے مان کی
دنیا‘‘ صحیح معنی میں اکیسویں صدی کے ہندستانی سماج اور اُس سے جڑے ہوئے
مسائل کا آئینہ ہے۔ تازہ ترین ٹکنالوجی کا اثر سماجی ڈھانچے پر ہوتا ہے۔
یہ ناول اِس اہم ترین موضوع پر ایک سنجیدہ مکالمے کی شروعات ہے۔ ذوقی اپنی
تصنیف کے ذریعہ لاتعداد سوالات اُٹھاتے ہیں اور بہت کارگر طریقے سے قاری
کے دماغ پر کاری ضرب لگاتے ہیں۔
ناول میں آج کے نوجوانوں کا سماجی
رجحان اور اُن کا پچھلی نسل سے فکری سطح پر، اور روزمرّہ کی زندگی میں رہن
سہن کا ٹکراؤ بہت خوبی سے بیان کیا گیا ہے۔ گلوبلائزڈ (Globalized) اور
لبلرائزڈ (Liberalized) دنیا میں بدلتی ہوئی قدروں کو ہر نسل اور طبقہ کے
لوگ جس نظریے سے دیکھنا پسند کرتے ہیں اس کا مکمل بیان بغیر اپنے ذاتی
کمنٹ کے ، مطالعہ مشاہدہ اور فکر کی سطح پر ذوقی نے بہت خوبصورتی سے دینے
کی کوشش کئے۔ آج کے دور میں کنزیومر یا صارف بن جانے کی حقیقت ابھی تک
صحیح طور پر لوگوں کے علم میں نہیں آئی ہے۔ میرے خیال میں شاید یہ اردو کا
یا ہندستانی زبان کا پہلا ناول ہے جس میں نئی ٹکنالوجی یا صارفی تہذیب کو
پہلی بار اس قدر نمایاں انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کنزومر دنیا میں
انسانی رشتے ، سیکس، یہ سب ایک بڑے بازار کے حصہ بن چکے ہیں۔ ذوقی نے ٹھیک
ہی لکھا ہے ____
اس اندھی، کانی اور بہری ریس میں گھپلے ہوں گے ___
گھپلوں کی پرواہ مت کیجئے۔ چھوٹے شہر، چھوٹے لوگ، چھوٹی دنیائیں پسیں گی
اور پسپا ہوں گی___ پرواہ مت کیجئے ___ ایک Big پاور ہو گا___ جس کی حکومت
بڑھتی جائے گی اور جیسا کہ ارندھتی رائے نے اپنے ایک مضمون میں کہا___
ہندستان، پاکستان زمینوں پر امریکی فوج گھوم رہی ہو گی۔ توگڑیا اور مودی
اور اٹل، مشرف جیسے لوگ صدام کی طرح بڑھی ہوئی داڑھی میں ، نظر بند ہوں گے
___ یہ سب ہوں گے ، کیونکہ___ زندہ رہنے اور فتح کے لئے کوئی دلیل نہیں ہو
گی۔ ترقی اور اُڑان کے لئے کوئی جرح، کوئی سوال نہیں ہوں گے۔ تیزی سے
بڑھتی دنیا میں ہم لغات سے Noاور Impossible کو خارج کر دیں گے۔ رہ جائے
گا۔ صرف Yes ہاں ___
بندر انسان پیدا کرے گا___ہاں !
ہوائی جہاز کی جگہ انسان اُڑے گا___ ہاں !
دیکھتے
ہی دیکھتے تعریفیں بدل گئیں۔ سچ کی۔ جھوٹ کی۔ غلط کی۔ جائز کی ناجائز
کی___ تعریفیں بدل گئیں۔ تفریحوں کے سامان بدل گئے ___ چھوٹے کھلونے چلے
گئے۔ ہتھیار آ گئے۔ بچوں نے میزائلس، راکٹ لانچرس اور بندوق پسند کر لئے
___ بچوں کو w.w.f پسند آنے لگا___ بچے ایسی فائٹ دیکھنے لگے۔ جس میں اذیت
تھی___ ایڈونچر تھا___ ایک خوبصورت موت تھی۔ بچوں کو ویپنس چاہئے ___
ویپنس۔ بچوں کو Warچاہئے ___
جنگ اور کھلونے ___
کیا آپ نے کبھی بچوں کے ویڈیو گیمس دیکھے ہیں ___ زیادہ تر بچے کیا دیکھتے ہیں۔ ویپنس اور ___war
داڑھی
لگائے اسامہ پر امریکی گولہ باری ہو رہی ہے ___ بچے تالیاں بجا رہے ہیں
___ ہیرو کو ولن اور ولن کو ہیرو بنایا جا رہا ہے ___ نئی سنسکرتی کچھ بھی
کر سکتی ہے۔ نئی سنسکرتی نے بچوں کی آنکھوں سے میرا کل، چمتکار اور حیرت
کی چمک چھین لی۔ ہتھیار دے دیئے اور ایک نیا کھلونا___
بچے ’کولا‘
پیتے ہیں۔ جنک فوڈ کھاتے ہیں۔ باربی ڈالس پر لٹو ہوتے ہیں ___ اور پوکے
مان دیکھتے ہیں ___ ہمیں ایسے بچے تحفہ میں ملے ہیں جن کے پاس اپنا کچھ
نہیں ___
دراصل ہم ایک مشکل ترین دنیا پر داخل ہو گئے ہیں ___ جہاں
فیصلے آسان نہیں ہوں گے ___ قانون کو اپنے اب تک بنے بنائے اصولوں اور
ضابطوں کو توڑنے کے بارے میں سوچنا ہو گا___ آپ اب 2+2=4 پر بھروسہ نہیں
کر سکتے ___ الجبرا کے فارمولوں سے لے کر بدن کا الجبرا اور دماغ کا
جغرافیہ سب کچھ بدلنے لگا ہے ___جسم کی ہسٹری اور تیزی سے اندر پیدا ہوتی
بھوک کی بائیالوجی کسی بھی طرح کے Test یا D.N.Aسے بالاتر ہے ___‘‘
حقیقتاً
نئے بازار کو سمجھنے کے لئے محاورے اور الفاظ بھی نئے ڈھونڈنے ہوں گے۔
ذوقی نے اس تلخ حقیقت کو جس جسارت اور ہمت کے ساتھ قلم بند کیا ہے ، یہ
اُنہی کا حصہ ہے۔ یقیناً یہ ناول موجودہ سماج اور ادب میں ایک نئے مکالمے
کو جنم دے گا۔
٭٭٭