صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
دوسری دستک
حسن فرخ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اللہ،ابلیس اور آدم
خدا تو عظیم و برتر بھی ہے، خالق ادنیٰ و اعلیٰ بھی ہے
خدا روحِ اعلیٰ و ارفع ہے
وہ ہر ایک قانون اور ضابطۂ مادّہ و روح کا
ہے خالق بھی اور ہے بجائے خود اک
قانونِ مطلق بھی
وہ اک راز بھی ہے مگر سب پہ ظاہر بھی ہے
اس کی قربت کی چاہت اگر ہو
تو پھر جسم میں اپنے موجود ہر نفس سے ماوراء
روح کی ساری گہرائیوں میں اترنا پڑے گا
توجہ کی مرکوزیت سے نپٹنا پڑے گا
خیالِ وجود اور رفتارِ سر سر پہ فوری لگانی پڑے گی لگام
ہاں ضروری ہے ایسے میں نورِ ضمیر اور اک خلائے بسیط
اس کی وحدانیت کے احاطے میں ہیں لامکاں اور مکاں
کیوں کہ وہ ساری سمتوں سے، جہتوں سے ہے ماوراء
اس کی قدرت کے تابع ہیں سمتیں تمام
اس کی ایماء کی ہیں منتظر ساری جہتیں کہ وہ ساری سمتوں کا
مالک بھی ہے
مگر ماوراء ہے ، سبھی سے کہ ادراک بھی اس کا ممکن نہیں ہے کسی سے
کیوں کہ وہ، نہ تو پیدا ہوا ہے کسی سے، نہ اس نے کسی کو دیا جنم، پھر بھی
وہ خالق ہے انسان کا، ایک اک کائنات ازل وابد کا
پھر بھی وہ ذرّہ ذرّہ میں ہے، سب جہانوں کی کیفیتِ کیف و مستی میں
اور ہر ہر عمل میں ہے پنہاں بھی ظاہر بھی
سورجوں اور چاندوں کی ساری توانائیوں میں بھی اور
پُر سکوں روشنی میں بھی موجود ہے
مگر قلبِ انسانی اس کا مامن بھی مسکن بھی
دل کی آنکھوں کی اس تک رسائی ہے ، لیکن
صرف محسوس کرنے، نوعِ انساں کی خاطر
طاقت خیر کا انعکاسی حصول ایسے ممکن ہے، جیسے کہ
انسان پوری طرح اک سکوت و سکون و بقاء
طاقتِ ربِ ارفع کے جذبات و مستی سے سرشار ہو
پھر سکوں ہی سکوں ہے، اور اللہ ہی اللہ ہے
وہ روحِ بلا خیز کیا ہے کہ جو پہلے کچھ تھی مگر شر ہی شر ہے اب
اس کی منزل نہیں کوئی جز شر پسندی، عمل اس کا
فقط اک مثلث کے ہر زاویئے میں مقید بھی ہے، اور آزاد بھی،
ہم آہنگ ہے، مگر اصل میں اور ہی کچھ ہے وہ اور کئی طاقتوں میں ہے وہ منقسم
اس کا مری و جود ایک بے اصل، بے بس ہیولیٰ ہے
جو ظاہر میں ظاہر نہیں ہے، مگر زندہ ہے، اس پل تلک، جب تلک
اس کو مہلت ہے حاصل کہ لوگوں کو گمراہ کرنے میں کوشاں رہے
وہ ناواقف راہِ گم کردہ کب ہے، وہ تو ہے، منکر حکم ربِّ عظیم
حیاتِ مدام و دوام اس کو حاصل ہے، پر اس کو حاصل کہاں استقام
توجہ کی یکسوئی ہے، نہ سکونِ ثبات اور نہ مستی، نہ کیف
اس کے انکار نے، ذرّہ ذرّہ میں اس ذات کے
انتشار ایک پیدا کیا اور غرور و تکبر نے اس میں فقط ایک ترغیبِ شر گھول دی
غرور اس کا یہ تھا کہ وہ آگ ہی آگ ہے
اس کا انکار یہ تھا کہ سجدہ کروں اس کو جو مٹی ہی مٹی ہے
اسی سوچ نے اس کو کمزور بھی اور محدود کر دیا اور ملعون بھی
صرف تخلیق کافی نہیں ہے، مکمل بھی ہو، اس کا مقصد بھی ہو
تخلیق کی ایسی صنعت گری، اچھے صناع کی پہلی پہچان ہے
کرّۂ ارض کی سب سے اشرف جو مخلوق ہے، وہ بس انسان ہے
جس میں صنعت گری کی سبھی خوبیاں اور نازک سی تصویر کا دائرہ
ایسے شامل ہے جیسے کہ وہ خالق کائنات ازل اور ابد کا خلاصہ ہے
جس کا جسمانی و معنوی ارتقاء، رب کا اک ہے اشارہ
کہ جس میں حیاتِ دو روزہ کی ہر ہر طلب قید ہے، ہر تمنا اسیر رہ گمرہی ہے
مگر دل یہ کہتا ہے، ایسا نہیں ہے، مگر اس کی ہر سانس کی اصل سے
اک ظہورِ وجود از خود، اندیشہ ارتقائے حیات نمو ہے
کیوں کہ وہ رب کی اعلیٰ ترین، اک وجودی حقیقت ہے، جس کا کوئی عکس بھی
اس جہاں میں نہیں ہے، وہ ہزاروں برس کے مکمل جھکولے کا اک انفرادی و ذہنی عمل ہے
وہی کائنات ازل کا تسلسل ہے، تاریخ کی اک کڑی ہے
جس نے انسان کو عقل دی، پہلے اشیاء کے سب نام اس کو سکھائے
کہ جن سے فرشتے بھی واقف نہیں تھے، تمدن سکھایا
تصور بھی اس کا سدا نوعِ انسان کی روحانی و منضبط زندگانی کا محور رہا ہے
ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ وہ محور رہے گا
راہ کا معنوی، نفسیاتی مزاج، ایسے ذہنِ رسا سے بھی پہلے سے ہے
جس کو وجدان اور ادراکِ روحانیت کے تصور سے پہلے، الٰہی تصور کی گہرائیوں میں ہی محسوس کر سکتے ہیں
لیکن ایسے سبھی انکشافات، وجدان، ادراک، روحانیت کی جبلّی و حسّی نگاہِ جنوں
کے ذریعہ بھی، انسان کے جنم کی ایک توجیہہ ہے، راز کے پردے گہرے ہی گہرے ہیں
ہم ایسے ہی انداز میں سوچتے ہیں کہ کیا رب نے مٹی کو
ایسی کسی شکل میں ڈھلنے کا حکم کوئی دیا تھا
یا کہ اُس نے، خود انسان کے جسم کو، اس کے اعضاء کو، ناخن سے تا ابرو سب کچھ بنایا تھا
اور مٹی کے اس، جسم میں پھونک کر روح
انسان کو، خوبصورت سا اک غیر مرئی لبادہ عطاء کر دیا تھا
جس میں شامل ہیں، خلیے، جسیمے، دماغ اور سب کچھ
ایسے سارے حقائق کے پردے تو اُٹھتے رہے ہیں، مگر ایسا لگتا ہے رب نے
ایسے سارے حیاتی عمل کو کچھ اس طرح سے مرتکز کر دیا ہے
کہ جو بھی ہے تخم حیات اپنے اندر، مکمل حیاتی عمل اس میں موجود ہے
اپنے اعضاء، بدن، روح اور ذہن کی قوتوں میں ہی موجود ہو
کون ہے وہ، بھلا کون ہے،
بھلا کون ہے ؟ میں نہیں تو بھلا کون ہے
٭٭٭