صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
دشتِ صدا
منیر نیازی
"دشمنوں کے درمیان شام" مجموعے کی اور کچھ مزید غزلیں
ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
دل خوف میں ہے عالمِ فانی کو دیکھ کر
آتی ہے یاد موت کی پانی کو دیکھ کر
ہے بابِ شہر ِمردہ گزرگاہِ بادِ شام
میں چُہ ہوں اس جگہ کی گرانی کو دیکھ کر
ہِل سی رہی ہے حدِّ سفر فرطِ شوق س
دھندلا رہے ہیں حرف معانی کو دیکھ کر
آزردہ ہے مکان میں خاکِ زمین بھی
چیزوں میں شوقِ نقلِ مکانی کو دیکھ کر
ہے آنکھ سرخ اس لبِ لعلیں کے عکس سے
دل خوں ہے اس کی شعلہ بیانی کو دیکھ کر
٭٭٭
شبِ وصال میں دوری کا خواب کیوں آیا
کمالِ فتح میں یہ ڈر کا باب کیوں آیا
دلوں میں اب کے برس اتنے وہم کیوں جاگے
بلادِ صبر میں اک اضطراب کیوں آیا
ہے آب گل پہ عجب اس بہارِ گزراں میں
چمن میں اب کے گلِ بے حساب کیوں آیا
اگر وہی تھا تو رخ پردہ بے رخی کیا تھی
ذرا سے ہجر میں یہ انقلاب کیوں آیا
بس ایک ہوٗ کا تماشہ تمام سمتوں میں
مری صدا کے سفر میں سراب کیوں آیا
میں خوش نہیں ہوں بہت دور اس سے ہونے پر
جو میں نہیں تھا تو اس پر شباب کیوں آیا
اُڑا ہے شعلۂ برف ابر کی فصیلوں پر
یہ اس بلا کے مقابل سحاب کیوں آیا
یقین کس لیے اس پر سے اٹھ گیا ہے منیرؔ
تمھارے سر پہ یہ شک کا عذاب کیوں آیا
***
سن بستیوں کا حال جو حد سے گزر گئیں
ان امتّوں کا ذکر جو رستے میں مر گئیں
کر یاد ان دنوں کو کہ آباد تھیں یہاں
گلیاں جو خاک و خون کی دہشت سے بھر گئیں
صر صر کی زد میں آۓ ہوۓ بام و در کو دیکھ
کیسی ہوائیں کیسا نگر سرد کر گئیں
کیا باب تھے یہاں جو صدا سے نہیں کھلے
کیسی دعائیں تھیں جو یہاں بے اثر گئیں
تنہا اُجاڑ برجوں میں پھرتا ہے تو منیرؔ
وہ زرفشانیاں ترے رخ کی کدھر گئیں
***