صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


دیکھ اے دشتِ جنوں۔۔۔۔

مصطفیٰ زیدی


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                ٹیکسٹ فائل

یاد

رات اوڑھے ہوئے آئی ہے فقیروں کا لباس

چاند کشکولِ گدائی کی طرح نادم ہے

دل میں دہکے ہوئے ناسور لئے بیٹھا ہوں

یہی معصوم تصور جو ترا مجرم ہے

کون یہ وقت کے گھونگٹ سے بلاتا ہے مجھے

کس کے مخمور اشارے ہیں گھٹاؤں کے قریب

کون آیا ہے چڑھانے کو تمنّاؤں کے پھول

ان سلگتے ہوئے لمحوں کی چتاؤں کے قریب

وہ تو طوفان تھی، سیلاب نے پالا تھا اسے

اس کی مدہوش امنگوں کا فسوں کیا کہیے

تھرتھراتے ہوئے سیماب کی تفسیر بھی کیا

رقص کرتے ہوئے شعلے کا جنوں کیا کہیے

رقص اب ختم ہوا موت کی وادی میں مگر

کسی پائل کی صدا روح میں پایندہ ہے

چھپ گیا اپنے نہاں خانے میں سورج لیکن

دل میں سورج کی اک آوارہ کرن زندہ ہے

کون جانے کہ یہ آوارہ کرن بھی چھپ جائے

کون جانے کہ اِدھر دھند کا بادل نہ چھٹے

کس کو معلوم کہ پائل کی صدا بھی کھو جائے

کس کو معلوم کہ یہ رات بھی کاٹے نہ کٹے

زندگی نیند میں ڈوبے ہوئے مندر کی طرح

عہدِ رفتہ کے ہر اک بت کو لئے سوتی ہے

گھنٹیاں اب بھی مگر بجتی ہیں سینے کے قریب

اب بھی پچھلے کو، کئی بار سحر ہوتی ہے

***

غزل

کفِ مومن سے نہ دروازۂ ایماں سے ملا

رشتہ درد اسی دشمنِ ایماں سے ملا


اس کا رونا ہے کہ پیماں شکنی کے با وصف

وہ ستمگر اسی پیشانیِ خنداں سے ملا


طالبِ دستِ ہوس اور کئی دامن تھے

ہم سے ملتا جو نہ یوسف کے گریباں سے ملا


کوئی باقی نہیں اب ترکِ تعلق کے لیۓ

وہ بھی جا کر صفِ احبابِ گریزاں سے ملا


کیا کہیں اس کو جو محفل میں شناسا بھی نہ تھا

کبھی خلوت میں در آیا تو دل و جاں سے ملا


میں اسی کوہ صفت خون کی اک بوند ہوں جو

ریگ زارِ نجف و خاکِ خراساں سے ملا

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول