صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
دروازہ
صدیق عالم
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
وہ میرے بہت ہی برے دن تھے۔ میری پانچ برس کی نوکری چلی گئی تھی اور مجھے پورا یقین تھا کہ آئندہ کئی ماہ تک مجھے کوئی نوکری نہیں ملنے والی، بلکہ اب شاید ہی کوئی ڈھنگ کی نوکری مجھے ملے۔میرے پاس ایک برائے نام پیشہ ورانہ تعلیم تھی جس کے دعویٰ دار روز بہ روز بڑھتے جا رہے تھے۔ اور ہنر کے نام پر میرے پاس چپ رہنے کے علاوہ دوسرا کوئی ہنر نہ تھا۔ جب میری میز پر تین ماہ کی تنخواہ کے ساتھ برخواستگی کا پروانہ رکھا گیا تو میں کھلی آنکھوں سے صرف اس لفافے کو دیکھتا رہ گیا جو معمول سے زیادہ دبیز تھا (گرچہ بعد میں ان میں پانچ سو کا ایک نوٹ جعلی ثابت ہوا جسے کیشیر نے بغیر کوئی سوال کیے مودبانہ خاموشی کے ساتھ بدل دیا تھا۔) ان لوگوں نے پچھلے کئی مہینوں سے مجھے اشارے کنایے میں یہ بتانا شروع کر دیا تھا کہ کمپنی کو میری کارکردگی اطمینان بخش نظر نہیں آتی، کہ میری ریویو ہونے والی ہے۔ جب انھوں نے مجھ سے پچھلے سات برسوں کی نوکریوں کی تفصیل مانگی تو مجھے ہوشیار ہو جانا چاہیے تھا اور استعفٰی کے بارے میں سوچنا شروع کر دینا چاہیے تھا۔ اس جگہ کام کرنے سے پہلے میں نے کئی جگہ سچ مچ کی نوکریاں کی تھیں اور کئی جگہ سے تجربات کے جعلی سرٹیفکیٹ حاصل کیے تھے جنھیں ترس کھا کر مجھے دے دیا گیا تھا۔ مگر میں نے سوچنے میں کافی وقت لگا دیا۔ اپنی خاموش طبیعت کے سبب میں نے دوسروں سے اس کا تذکرہ بھی نہیں کیا، نہ ہی کسی سے کوئی رائے مانگی، گرچہ انھیں اس بات کا پتہ تھا کہ میرے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے۔ میرے آفس میں توسن گلاس واحد شخص تھا جو اکثر میری میز پر آ کر مجھ سے ایک آدھ ذاتی باتیں کر لیا کرتا۔ اسے مجھ سے دلی ہمدردی تھی۔ میں بھی اسے ناپسند نہیں کرتا تھا۔ وہ لانبے قد کا ایک ادھیڑ عمر کا آدمی تھا، جس نے مشنریوں کے ایک فری اسکول میں تعلیم پائی تھی ۔ وہ ایک قبائلی کرسچن تھا جس پر یہ نام کچھ جچتا نہ تھا۔ اس کی ذاتی زندگی کے بارے میں میں نے کبھی جاننے کی کوشش نہیں کی مگر میرے نہ چاہنے پر بھی وہ اختصار کے ساتھ اپنے حالات مجھے بتا دیا کرتا۔ مثال کے طور پر ایک بار اس نے بتایا کہ وہ جنگل محل کے جس شہر میں پلا بڑھا اب اس کا نام بدل گیا ہے۔ واقعی، مجھے اس وقت یہ عجیب لگا تھا کہ وہ کس طرح اپنے پیدائشی شہر کی شناخت سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا، گرچہ بعد میں مجھے اس واقعے میں کوئی غیر معمولی بات دکھائی نہیں دی۔ دوسری باراس نے اپنے چھوٹے بھائی کا ذکر کیا جسے ایک تیندوا اٹھا کر لے گیا تھا۔
"وہ صرف پانچ برس کا تھا اور مجھے میرے بھائی بہنوں میں سب سے عزیز تھا۔"
"شاید اس لیے کہ وہ جلد موت کی آغوش میں جانے والا تھا۔" مجھے خود کو بولتے دیکھ کر حیرت ہوئی تھی۔
"نہیں ، اس وجہ سے نہیں ۔" ایک ہاتھ میری کرسی کی پشت پر رکھے وہ اپنی چھوٹی چھوٹی قبائلی آنکھوں سے میری طرف تاک رہا تھا۔ "اس کے آخری لمحے تک ہمیں کب پتہ تھا کہ وہ مر جانے والا تھا؟"
ہاں ، میں نے اس وقت دل ہی دل میں تسلیم کیا، جسے ہم رگ جاں سے قریب رکھتے ہیں ہمیں اس وقت تک اس کی موت کا یقین نہیں ہوتا جب تک وہ مر نہیں جاتا، بلکہ اکثر تو اس کے مر جانے کے بعد بھی کئی دنوں تک ہم خود کو یقین دلا نہیں پاتے۔ ہمارا دل کہتا ہے کہ وہ ابھی زندہ ہے اور کسی بھی وقت سامنے آ کھڑا ہوگا۔ مجھے ایک شخص کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ اس نے برسوں تک اس کا یقین نہیں کیا تھا کہ بس سے کچل کر اس کی لڑکی کی جان چلی گئی تھی، گرچہ اس نے اپنے ہاتھوں سے اس کے ننھے منے جسم کو ہندوؤں کے قبرستان میں دفن کیا تھا۔ مجھے اس شخص کو دیکھنے، اس سے ملنے کی بڑی تڑپ تھی۔ یہ واقعہ میرے میس کے ایک بزرگ نے بتایا تھا جو کچھ برس پہلے ریلوے کی نوکری سے سبکدوش ہوا تھا، غیر شادی شدہ تھا، اپنی نوکری کی آخری دہائی اس نے اس میس میں گذاری تھی اور اب اس کا ارادہ اسے مرتے دم تک چھوڑنے کا نہ تھا۔
"یہ خبر اخبار میں چھپی تھی ۔" اس نے بتایا۔ "بہت پہلے میں نے اسے بنگلہ اخبار میں دیکھا تھا۔ مگر ان اخبار والوں کا کیا بھروسہ۔ اکثر کسی دلچسپ خبر کی کمی کو پوری کرنے کے لیے وہ جھوٹ موٹ کی خبریں بھی چھاپ دیتے ہیں ۔"
اقتباس
٭٭٭