صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


درد شمارہ

زکریا شاذ

ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

غزلیں

عجب حالات میں رکھا ہوا ہوں

نہ دن نے رات میں رکھا ہوا ہوں


تعلق ہی نہیں ہے جن سے میرا

میں ان صدمات میں رکھا ہوا ہوں


کبھی آتا نہیں تھا ہاتھ اپنے

اب اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہوں


ذرا بھی رہ نہیں سکتا ہوں جن میں

میں ان جذبات میں رکھا ہوا ہوں


جلائے کس طرح یہ دھوپ مجھکو

کہیں برسات میں رکھا ہوا ہوں


خموشی کہہ رہی ہے شاذ اس کی

میں اس کی بات میں رکھا ہوا ہوں

٭٭٭



صدائیں اتنی اونچی ہیں کہ مدھم سوچتے ہیں

سو اب ہم سوچنے والے بھی کم کم سوچتے ہیں


کسی سے بات کیا کرنی،ٹھہرنا کس لیے پھر

جہاں پر زخم سے پہلے ہی مرہم سوچتے ہیں


بنائیں نقش تو اس کو مٹا دیتے ہیں خود ہی

اگر ہم سوچتے بھی ہیں تو برہم سوچتے ہیں


جو سچ پوچھو تو ہم کو بھی خبر اس کی نہیں ہے

جو دنیا ڈھونڈتے ہیں ہم جو عالم سوچتے ہیں


یہ ہم کیا دیکھتے اور سوچتے رہتے ہیں آخر

کہ پھر ہم دیکھتے ہیں کچھ نہ کچھ ہم سوچتے ہیں


جگہ یہ شاذ، لے کے دم نہیں ہے سوچنے کی

یہاں تو ہر قدم پر کھینچ کے دم سوچتے ہیں

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول