صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
درد دِل میں ہے
فوقؔ کریمی
غزلیں
لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
وہ مل گئے تو ہمیں اپنا کچھ پتا نہ ملا
دعا تو کی تھی مگر حاصلِ دعا نہ ملا
قمار خانے میں دو چار تو ملے لیکن
’’حرم میں ایک بھی ہم کو تو پارسا نہ ملا‘‘
وہ زندہ کیسے ہے اپنوں میں ؟ غور اِس پہ کرو
تمام عمر جسے کوئی آسرا نہ ملا
مزہ تو جب ہے اُسے زیبِ داستاں کر لو
وہ ایک لفظ جو اب تک کہیں لکھا نہ ملا
خوشی سے ترکِ تعلق تو کیجئے لیکن
ہمارے جیسا اگر کوئی دوسرا نہ ملا
رواں دواں ہے بڑے عزم سے سوئے منزل
وہ قافلہ کہ جسے کوئی رہنما نہ ملا
ہمارے زخم تو ہر شخص نے کُریدے ہیں
مگر جہاں میں کوئی درد آشنا نہ ملا
شمیمِ زلف تو پہلے ہی ہم سے برہم تھی
مزاج تیرا بھی برسوں سے اے صبا نہ ملا
ہمارے عکس بھی جس میں ہمیں نظر آتے
ہمیں تو فوقؔ کوئی ایسا آئینا نہ ملا
٭٭٭
آنکھوں میں لئے شام کبھی کیفِ سحرآ
اے جانِ حیا، نازِ وفا، سوزِ جگر آ
مرجھانے لگے پھول مرے دیدہ و دِل کے
گلشن سے باندازِ شمیمِ گلِ تر آ
باقی ابھی لوگوں میں ہے کچھ ذوقِ نظارہ
اے حُسنِ جہاں سوز باندازِ دگر آ
مدت سے ہے محروم یہ دِل شام و سحر سے
تو گیسو و عارض میں لئے شام و سحر آ
میں بڑھ کے تجھے چوم لوں سینے سے لگا لوں
قاصد کوئی ایسی تو خبر لے کے اِدھر آ
بھیگی ہوئی راتوں میں قیامت ہے تری یاد
’’اے کیفِ غزل نغمگیِ قلب و جگر آ‘‘
ہنستے ہوئے کٹ جائے گی ہر رات سفر کی
منزل ہے بہت دور تو اے جانِ سفرآ
کب تک یہ شب و روز کی ظلمت کا تسلّط
پہلو میں کبھی جلوۂ خورشید و قمر آ
ہر غم کے لئے فوقؔ کی آغوش کھلی ہے
ہر غم سے کوئی کہہ دے کہ آ اور اِدھر آ
٭٭٭