صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


انتخابِ درد

خواجہ میر درد

ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

غزلیں

تہمتیں چند اپنے ذمے دھر چلے

جس لیے آئے تھے سو ہم کر چلے


زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے

ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے


کیا ہمیں کام ان گلوں سے اے صبا

ایک دم آئے ادھر ادھر چلے


دوستو دیکھا تماشہ یاں کا سب

تم رہو خوش ہم تو اپنے گھر چلے


آہ بس جی مت جلا تب جانیے

جب کوئی افسوں ترا اس پر چلے


شمع کی مانند ہم اس بزم میں

چشم نم آئے تھے دامن تر چلے


ڈھونڈتے ہیں آپ سے اس کو پرے

شیخ صاحب چھوڑ گھر باہر چلے


ہم جہاں میں آئے تھے تنہا ولے

ساتھ اپنے اب اسے لے کر چلے


جوں شرر اے ہستی ِ بے بود یاں

بارے ہم بھی اپنی باری بھر چلے


ایک میں دل ریش ہوں ویسا ہی دوست

زخم کتنوں کا سنا ہے بھر چلے


ہم نہ جانے پائے باہر آپ سے

وہ بھی آڑے آ گیا جدھر چلے


ساقیا، یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ

جب تلک بس چل سکے ساغر چلے


درد کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب

کس طرف سے آئے تھے کدھر چلے

٭٭٭



جگ میں آ کر ادھر ادھر دیکھا

تو ہی آیا نظر، جدھر دیکھا


جان سے ہو گئے بدن خالی

جس طرف تو نے آنکھ بھر دیکھا


نالہ، فریاد، آہ اور زاری

آپ سے ہو سکا، سو کر دیکھا


ان لبوں نے نہ کی مسیحائی

ہم نے سو سو طرح سے مر دیکھا


زور عاشق مزاج ہے کوئی

درد کو، قصہ مختصر، دیکھا

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول