صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


دربھنگے  کا جو ذکر کیا

شکیل الرّحمن

ڈاؤن لوڈ کریں 

 

   ورڈ فائل بغیر تصویروں کے                                                         ٹیکسٹ فائل

ورڈ فائل مع تصویروں کے

اقتباس


    اسکالر شپ کی جو رقم رُکی پڑی تھی اُس کی تقسیم کا حکم جاری کیا، کل رقم گیارہ لاکھ سے  زیادہ تھی۔ (Rs. 11,82,692/-) قومی سطح پر پہنچنے  والے  طلبہ کی تعداد ۳۲۱ تھی، اُن کے  لیے  تین لاکھ سے  زیادہ رقم تھی، اساتذہ کے بچوں  کے  لیے  کم و بیش چھ ہزار، ریاستی سطح پر پوزیشن پانے  والے  طلبہ کے  لیے  ڈیڑھ لاکھ، ا چھی صلاحیت رکھنے  والے  غریب طلبہ کے  لیے  دو لاکھ اُنسٹھ ہزار  اور  تعلیم کے  لیے  قرض پانے  والوں  کے  لیے  کم و بیش تین لاکھ!

    رقومات کے  چیک لے  کر کئی طلبہ مجھ سے  ملنے  آئے، اُن کے  چہروں  پر خوشی  اور  شادمانی دیکھ کر مجھے  بے  حد خوشی ہوئی۔ لگا میرے بچوں  کو اُن کا حق ملا ہے۔

    بہار یونیورسٹی میں  پی ایچ ڈی  اور  ڈی لٹ وغیرہ کی ڈگریوں  کے  لیے  جو زبانی امتحانات (Viva Voce) ہوتے  تھے  اُنھیں  عام کر دیا تھا یعنی جو چاہے  شریک ہو سکتا ہے۔ سوال و جواب کے  معیار کو دیکھ سکتا ہے۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ زبانی امتحانات میں  وائس چانسلر کی شرکت بھی ہونے  لگی۔ میں  باقاعدہ بیٹھنے  لگا، اس کا بہت ا چھا اثر ہوا تھا، اُمیدوار تیاّر ہو کر آتے  تھے، ان کی صلاحیت  اور  ذہانت دونوں  کا امتحان ہوتا تھا، مختلف فیکلٹیوں  میں  اچھے ّ  اور  ذہین اسکالرز ملے۔ بعض تجربے  دلچسپ ہیں۔ ایک تجربہ بیان کرتا ہوں، ہوا یہ کہ تاریخ کے  شعبے  میں  زبانی امتحان تھا، میں  بھی شریک ہوا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ جو سوال کیا جاتا پی ایچ ڈی ڈگری کا امیدوار خاموش رہتا  اور  نگراں  پروفیسر جواب دیتے۔ کئی سوالوں  کے  جواب میں  نگراں  پروفیسر نے  اپنے  شاگرد  اور  ڈگری کے  امیدوار سے  یہ کہا اپنے  مقالے  کے  اِس صفحے  پر جواب ہے، اُس صفحے  پر جواب ہے اور شاگرد اپنے  تحقیقی مقالے  کے   اور  اق بڑی تیزی سے  اُلٹتا تھا۔ یہ تماشا دیکھ کر ہنسی بھی آئی  اور  دُکھ بھی ہوا۔ صاف ظاہر تھا کہ مقالہ نگراں  پروفیسر ہی نے  تحریر فرمایا تھا۔ میں  نے  نگراں  پروفیسر سے  پوچھا ’’یہ تو بتائیے  آپ ہر سوال کاجواب کیوں  دے  رہے  ہیں؟ مقابلہ اُمیدوار نے  لکھا ہے  یا آپ نے؟‘‘  ہر طرف سناّٹا سا چھا گیا، میں  اُٹھ کر چلا آیا۔

    .یونیورسٹی میں  بھی ’’وائے  وا‘‘  کو عام کر کے  وائس چانسلر کی حیثیت سے  میں  خود بھی بیٹھنے  لگا۔ بنیادی مقصد ریسرچ کے  معیار کو دیکھنا  اور  خود اپنے  علم میں  اضافہ کرنا تھا۔ یہاں  بھی چند دلچسپ تجربے  ہوئے۔ یونیورسٹیوں  میں  ریسرچ کا حال بہت حد تک معلوم تھا، صرف ایک ٹھنڈی سانس ہی سے  لیا کرتا تھا!

    مسلسل کام کرتے  ہوئے  مجھے  سکون مل رہا تھا، یہ دیکھ کر بھی اطمینان ہوا کہ یونیورسٹی کا ماحول بہت حد تک بہتر ہو گیا ہے۔ میں  اکثر رات دیر تک آفس میں  کام کرتا، یونیورسٹی کے  بعض افسر بھی ساتھ رہتے، قدم قدم پر ان کا تعاون مل رہا تھا۔ چھوٹے  بڑے  بہت سے  کام ہوئے  جن کی تفصیل یونیورسٹی کے  ریکارڈ میں  موجود ہے۔

    ایک شام راج بھون سے  چانسلر کا پیغام ملا کہ میں  صبح تک ۱۸!دسمبر سے  اب تک کی ایک مختصر رپورٹ اُنھیں  بھیج دوں۔ یہ بتاؤں  کہ اتنے  دِنوں  میں  میں  نے  کیا کام کیا ہے، مقصد یہ تھا کہ بتاؤں  کیا میں  نے  کوئی کام بھی کیا ہے  یا نہیں۔ چانسلر سے  ایسی توقع نہیں  رکھتا تھا، میرا کام بھی کھلی کتاب کی طرح تھا، پریس نے  .یونیورسٹی کو ایک بنیادی موضوع بنا رکھا تھا، یونیورسٹی کے  بدلتے  ہوئے  ماحول پر عوام کی نظر بھی تھی  اور  پریس کی بھی۔ ایسا لگ رہا تھا .یونیورسٹی میں  آزادی کے  بعد پہلی بار کچھ تجربے  ہو رہے  ہیں۔ بعض دوسری یونیورسٹی بھی .یونیورسٹی کو مثال بنا کر کام کر رہی تھیں۔ آخر چانسلر نے  ایسی رپورٹ مجھ سے  کیوں  مانگی؟ کیا دوسری یونیورسٹیوں  کے  وائس چانسلروں  کو بھی اس قسم کا پیغام ملا ہے؟ معلوم ہوا نہیں! کسی بھی یونیورسٹی کے  وائس چانسلر کو چانسلر کا کوئی بھی ایسا پیغام نہیں  ملا ہے۔ شبہ ہی نہیں  یقین آ گیا کہ دال میں  کچھ کالا ہے۔ اعلیٰ سطح پر کوئی بات پکڑ لی جائے اور اُسے  مسئلہ بنایا جائے، چونکہ رپورٹ صبح روانہ کرنا تھا اس لیے  اپنے  دو افسروں  کے  ساتھ بیٹھ گیا، ڈرافٹ تیاّر کر کے  ٹائپ کیا گیا۔ دستخط کیے، لفافہ بند کیا  اور  اسے  رجسٹرار کے  حوالے  کر دیا، صبح سویرے  کسی خصوصی ایلچی کے  ذریعہ لفافے  کو راج بھون بھجوانا تھا۔

    رپورٹ میں  ہر بات لکھ دی۔ اپنے  ہر عمل کی جانب اشارہ کر دیا۔ رپورٹ اس انداز سے  لکھی جیسے  ہر جگہ وائس چانسلر، چانسلر بابوگو وند نارائن سنگھ سے  یہ پوچھ رہا ہو کیا یہ غلط کیا ہے؟یہ غلط تو نہیں  کیا؟ مجھے  اپنی رائے  سے  نوازیئے، آشیرواد دیجیے اور کوئی کام غلط ہو گیا ہو تو نشاندہی کر دیجیے  تاکہ آئندہ محتاط رہوں۔ میں  نے  اُنھیں  لکھا۔ ۱۸!دسمبر کو جب میں  یونیورسٹی کیمپس میں  آیا تو یونیورسٹی کے  ملازمین کی ہڑتال تھی، اُسی شام ہڑتال توڑ دی، وائس چانسلر کی کوٹھی ہر درجہ ناپاک تھی، گندگی کی وجہ سے  ہم میاں  بیوی مسلسل پانچ گھنٹے  بے  چین رہے، رات دیر تک صرف ایک کمرے  کی صفائی کسی حد تک ممکن ہو سکی  اور  ہم چند گھنٹے  سوسکے، صبح پورے  کیمپس میں  غنڈہ گردی کا ماحول دیکھا، نام نہاد طلبہ کی غنڈہ گردی، چند یونیورسٹی کے  دادا قسم کے  ملازمین کی غنڈہ گردی، شہر سے  بھیجے  گئے  چند غنڈوں  کی غنڈہ گردی، یہ سب وائس چانسلر کو خوفزدہ کر نے اور اسے  اپنی مکمل گرفت میں  رکھنے  کا روایتی طریقہ  اور  انداز تھے۔ جناب یہاں  سے  کہانی شروع ہوتی ہے۔

    پھر

    غنڈہ گردی رُک گئی!

    امتحانات میں  نقل نویسی بند ہو گئی!

    یونیورسٹی قوانین نافذ ہو گئے اور بڑی سختی سے  نافذ ہو گئے۔

    امتحانات کے  سیکشن میں  جواب تک دھاندلیاں  ہوتی رہی ہیں  وہ بند ہو گئیں۔

    جعلی سرٹیفکیٹ  اور  نمبروں  کے  جعلی ’’مراکس شیٹس‘‘  ہمیشہ کے  لیے  بند ہو گئے۔

    ٹیبولیشن رجسٹرز (Tabuation Registers) میں  جو دھاندلی ہوتی تھی اچانک رُک گئی۔ نیپالی طلبہ کے  امتحانات کے  سلسلے  میں  جو قانون بنے  تھے  وہ سختی سے  نافذ ہو گئے۔ اس طرح ’’کانچھا کانڈ‘‘  (Kancha Kand) کا صفایا ہو گیا، ایک بہت بڑا ’مافیا‘  ختم ہو گیا! بعض سیاست دانوں  کے  دلال جو یونیورسٹی کے  باہر بھی رہتے  ہیں اور یونیورسٹی کے  اندر بھی جن کی پیٹھ ٹھونک کر یہ سیاست داں  یونیورسٹی کے  ماحول کو خراب کرتے  رہے  ہیں  بالکل خاموش ہو گئے  ہیں۔ یہ میری خوش قسمتی ہے اور میری یونیورسٹی کی بھی خوش قسمتی ہے  کہ اب لوگ یونیورسٹی کے  اندر  اور  یونیورسٹی کے  باہر،  اور  پورے  دربھنگہ ضلع  اور  دوسرے  تمام ضلعوں  میں  پچھلے  وائس چانسلروں  کی ناکامیوں اور میری کامیابیوں  کی کہانیاں  سنائی جا رہی ہیں۔ مجھ پر  اور  میری کامیابیوں  پر میتھلی زبان میں  جو چند گیت گاؤں  سے  نکل کر ہر جانب پھیلے  ہیں  اُن کی خبر یقیناً آپ کو بھی ہو گی اس لیے  کہ یہ گیت اخباروں  میں  بھی شائع ہوئے  ہیں۔

    جب سے  میں  آیا ہوں  کلاسیز ہو رہی ہیں، باقاعدہ ہو رہی ہیں، آپ کو اس کا علم ہے  کہ اس یونیورسٹی میں  کلاسیز ختم ہو چکے  تھے۔ اس سلسلے  میں  سب سے  بڑی مثال یہ ہے  کہ وہ اساتذہ جو سنڈیکیٹ کے  ممبر تھے  اُنھوں  نے  یہ سمجھ لیا تھا کہ کلاس میں  پڑھانا اب اُن کا کام نہیں  رہا، وہ تو اس یونیورسٹی کے  آقا ہیں، کلاس لینے  لگے  ہیں۔

    آپ کو لکھ چکا ہوں  کہ میں  نے  بہت سے  اساتذہ کے  تبادلے  کیے  ہیں، ان میں  اکثر نے  دیہی علاقوں  کے  کالجوں  سے  اپنے  پوسٹ کے  ساتھ دربھنگہ تبادلہ کرا لیا تھا، دیہی علاقوں  کے  طلبہ کے  حق میں  یہ قطعی مناسب نہ تھا، برسوں  سے  اُن کا نقصان ہو رہا تھا، میں  نے  جب ان علاقوں  کا دورہ کیا تو وہاں  کے  طلبہ کی مشکلات کا علم ہوا، اُنھیں  ٹیچرس کی ضرورت تھی، ان اساتذہ کی تقرری اس لیے  ہوئی تھی کہ وہ دیہی علاقوں  کے  کالجوں  میں  کام کریں  گے  لیکن سیاسی لیڈروں  کی سفارش سے  ان لوگوں  نے  اپنے  تبادلے  دربھنگہ کرالیے اور یہ بہت بڑا ظلم تھا، ریکارڈ دیکھنے  سے  پتہ چلا کہ ان میں  اکثرتبادلے  وزیر تعلیم شری ناگندرجھا کی سفارش پر ہوئے  ہیں، پچھلے  وائس چانسلر ان کے  دباؤ میں  رہے، اُنھوں  نے  یہ بھی نہیں  سوچا کہ طلبہ کا کتنا نقصان ہو گا، یہ ظلم ہے، المیہ ہے۔ ان میں  چند اساتذہ ایسے  تھے  جو صرف ’’سیاست کر نے  کے  لیے‘‘  دربھنگہ لائے  گئے  تھے۔ بعض سیاست دانوں اور وزیروں  کے  الیکشن میں  بھی انھوں  نے     حصہ لیا تھا۔

    میں  جب بھی آپ سے  ملا  اور  وزیر اعلیٰ سے  ملاقات کی، براہِ کرم آپ دونوں  نے  مجھ سے  یہی کہا کہ تم وائس چانسلر ہو، تمھیں  آزادی ہے  اس یونیورسٹی کو درست کر دو، میں  آپ دونوں  کا ممنون  اور  شکرگزار ہوں۔

    آپ سے  پہلے  جو چانسلر تھے  اُنھیں  میں  نے  بتادیا تھا کہ بہار کی سیاست کس طرح یونیورسٹی معاملات میں  دخل دے  رہی ہے، اسی مداخلت کی وجہ سے  اب تک اتنا نقصان ہو چکا ہے۔ میں  اپنی یونیورسٹی کے  متعلق صرف اتنا عرض کروں  گا کہ میں  نے  سیاست دانوں  کی دخل اندازی روک دی ہے۔ (ایک سیاست داں  جو پارلیمنٹ کے  ممبر ہیں  مجھ سے  ملنے  آئے، میں  نے  اُنھیں  وقت دیا، اُن سے  بات چیت کی، اُن کے  کام کا ہونا ناممکن تھا، میں  نے  انکار کر دیا، وہ باہر چلے  گئے، باہر نکلنے  کے  بعد اُنھوں  نے  مجھ سے  پھر ملنا چاہا تاکہ ایک بار  اور  دباؤ ڈال سکیں، میں  نے  اُن سے  ملنے  سے  انکار کر دیا، کہہ دیا آپ اب جو کچھ کہنا چاہتے  ہیں  یونیورسٹی کے  رجسٹرار سے  کہہ دیجیے، میں  صبح سن لوں  گا۔ رات کے  گیارہ بج چکے  تھے۔ وہ رات بھر وائس چانسلر کی کوٹھی سے  باہر رکشے  پر پڑے  رہے، میں  نے  اُن کی پروا نہیں  کی، صبح اُنھیں  یونیورسٹی کے  رجسٹرار کے  پاس جانا پڑا!)۔

    میں  جو کام کرتا ہوں  جمہوری طریقے  سے  کرتا ہوں، تجربہ کار پرنسپل، صدر شعبہ  اور  اساتذہ سے  مشورہ کر کے  کرتا ہوں، میرے  کسی کام کے  سلسلے  میں  ان کی جانب سے  اب تک کوئی اعتراض نہیں  ہوا ہے اور مجھے  بڑا اطمینان ہے۔ میں  بار بار ان کی میٹنگ بلاتا ہوں، ڈین کی تقرری کر چکا ہوں  لہٰذا ان سے  بھی مجھے  بڑی مدد مل رہی ہے۔

    بعض معاملات میں  عجیب مجبوریاں  ہیں، مثلاً اِگزامنیشن ڈپارٹمنٹ سے  بہت سی فائلیں  غائب ہیں۔ میں  کیا کر سکتا ہوں؟ جب میں  یہاں  آیا تو عجیب صورتِ حال تھی، بعض غنڈے  اِگزامنیشن سیکشن میں  کام کر رہے  تھے، اُن کا کوئی تعلق یونیورسٹی سے  نہیں  تھا، یونیورسٹی اُنھیں  تنخواہ بھی نہیں  دے  رہی تھی۔ وہ ’’روٹی پانی‘‘  کا انتظام خود کر لیتے  تھے، مجھے  ان غنڈوں  کو نکالنے  میں  دُشواریاں  پیدا ہوئیں  لیکن میں  نے  اُنھیں  نکال دیا  اور  یہ غیر معمولی کامیابی ہے۔ کنٹرولر آف اگزامنیشن ان غنڈوں  کی گرفت میں  تھا، مجھے  بہار یونیورسٹی کا ایک واقعہ یاد آیا، شرم آتی ہے  اس کا ذکر کرتے  ہوئے  لیکن چانسلر کو اس بات کی خبر ہونی چاہیے۔ بہار یونیورسٹی میں  غنڈے  لڑکوں  نے  کئی بار رجسٹرار کو ٹیبل پر کھڑا کیا تھا  اور  اُن کی دھوتی کھول دی تھی۔ میں  نے  وہاں  پہنچ کر اس تماشے  کو بند کیا تھا۔ کم و بیش وہی حالت میتھلا یونیورسٹی کے  اگزامنیشن سیکشن کی تھی۔ کنٹرول حد درجہ پریشان  اور  اُلجھا ہوا رہتا تھا۔

    میں  نے  درس و تدریس  اور  امتحانات کے  وقار کو بحال کیا  اور  مجھے  اس بات سے  بڑی خوشی ہے۔ آپ کو اس بات کی خبر ہو گی کہ انٹرمیڈیٹ کے  نتائج وقت سے  پہلے  شائع ہو گئے  ہیں۔ اس بڑی کامیابی پر میں  اُن اساتذہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں  کہ جنھوں  نے  اس سلسلے  میں  گہری دلچسپی لی۔

    آپ کو اس بات کی خبر ہے  کہ ایکٹ ۱۹۷۶ء کے  سیکشن ۳۵ کے  خلاف اس یونیورسٹی کے  ملازمین الاؤنس لے  رہے  تھے، ریاستی سرکار کی اجازت نہیں  لی گئی تھی، یہ پچھلے  وائس چانسلروں  کی غلطی تھی کہ وہ مٹھی بھر ملازمین کے  دباؤ میں  آ گئے  تھے اور اس طرح عوام کی رقم لوٹی جا رہی تھی۔ میں  نے  اس غیر قانونی الاؤنس کو بند کر دیا  اور  اس طرح ۷۵ لاکھ روپے  سالانہ بچ گیا۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہے  کہ میرے  اس عمل سے  ملازمین کی ہڑتال ہوئی  اور  اس ہڑتال میں  پیش پیش وہ ملازمین تھے  کہ جن سے  وزیر تعلیم کی رشتہ داری تھی  اور  جو وزیر تعلیم ناگندرجھا کی سفارش پر اس یونیورسٹی میں  کام کر رہے  ہیں۔ میں  نے  ان میں  سے  اکثر ملازمین کو معطل کر دیا۔ ان میں  وزیر تعلیم کا وہ بھائی بھی تھا کہ جس نے  یونیورسٹی میں  ہنگامہ کرانے  کاٹھیکہ لے  رکھا ہو جیسے! سنا ہے  ہڑتال پر بیٹھے  لوگوں  کو وزیر تعلیم کی جانب سے  رقم تقسیم کرتا ہوا بھی دیکھا گیا ہے۔ میرے  سخت اقدام کی وجہ سے  سب کے  ہوش اُڑگئے اور یہ لوگ کام پر واپس آ گئے۔

    اندازہ کیجیے  حالت کیا تھی، یونیورسٹی ملازمین کو ہر پانچ سال بعد ترقی ملی تھی۔ ۶۴ ملازمین ایسے  تھے  جو ’’ترقی پاتے  پاتے‘‘  ڈپٹی رجسٹرار کے  گریڈ میں  پہنچ گئے  تھے۔ ریاستی حکومت یا سنڈیکیٹ کی کوئی منظوری نہیں  تھی۔ یہ ۱۹۷۶ء کے  ایکٹ سیکشن ۳۵ کی خلاف ورزی تھی۔ میں  نے  اُنھیں  ان کی اپنی جگہ پہنچاکر یونیورسٹی کی عزّت بحال کی، بڑی بدنامی ہو چکی تھی، حیدرآباد میں  وائس چانسلر کانفرنس میں  اس تماشے  کا مذاق اُڑایا گیا تھا، واقعی یہ حیرت کی بات تھی۔

    بعض کالجوں  میں  منظورشدہ پوسٹ سے  کہیں  زیادہ اساتذہ  اور  ملازمین تھے، میں  نے  ابھی صرف اتنا کیا ہے  کہ اُنھیں  اُن کالجوں  میں  بھیج دیا ہے  کہ جہاں  ان کی ضرورت ہے۔

    ایک کیس دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا، ایک شخص چپراسی بنا، صبح اس کی تقرری ہوئی، دوپہر میں  وہ کلرک (اسسٹنٹ) بن گیا  اور  شام تک اُس کا گریڈ ڈپٹی رجسٹرار کا ہو گیا!

    کیا دھاندلی نہیں  ہے؟  اگر  ایک وائس چانسلر ایسی دھاندلی روک دیتا ہے اور پچھلی دھاندلیوں  کو ختم کر دیتا ہے  تو اُس کے  خلاف تحریک چلائی جاتی ہے، وزیر تعلیم حوصلہ افزائی کرتے  ہیں۔ ایک کلرک ایم اے  پاس کرتا ہے، لکچر ر بن جاتا ہے  بہت خوب، لیکن وہ یہ دیکھتا ہے  کہ وہ کلرک کی حیثیت سے  زیادہ تنخواہ لے  رہا تھا۔ ’’تنخواہ کے  تحفظ‘‘  (Pay Protection) کے  لیے  درخواست دیتا ہے اور اُس کی درخواست اُسی وقت منظور ہو جاتی ہے۔ وہ لکچر ر ہے، کلرک کی وہ تنخواہ لے  رہا ہے  جو ایکٹ کے  خلاف ہے۔ وہ اُن ۶۴ ملازمین میں  ہے  کہ جو ’’شاندار ترقی پاتے  ہوئے‘‘  ڈپٹی رجسٹرار کے  گریڈ میں  پہنچ گئے  ہیں۔ اِس کے  خلاف آپ فرمائیں  میں  کیا کار روائی کروں؟ جو آپ کاحکم ہو گا کروں  گا۔

    آپ کو یہ معلوم ہے  کہ میں  نے  وزیر تعلیم شری ناگندرجھا کی ترقی روک دی ہے، وہ چوردروازے  سے  پروفیسر ہو گئے  تھے۔ یہ قصّہ حاتم طائی کے  کسی خاص معرکے  کی طرح پورے  ملک میں  عام ہو چکا ہے۔ بی بی سی نے  بھی اس پر تبصرہ کیا ہے اور میری تعریف کی ہے۔ نیشنل پریس نے  اس معاملے  کو موضوع بنا رکھا ہے۔ میں  نے  غلط نہیں  کیا ہے  اس لیے  مجھے  کسی قسم کی شرمندگی نہیں  ہے، یہ انصاف کا تقاضا تھا۔ جب سے  یہ واقعہ ہوا ہے  وزیر تعلیم یونیورسٹی کے  معاملات میں  مسلسل دخل دے  رہے  ہیں، میرے  خلاف ملازمین کو بھڑکا رہے  ہیں، یہ چاہتے  ہیں  کہ میں  وائس چانسلر نہ رہوں، حقیقت یہ ہے  کہ بہار کے  ایجوکیشن مافیا کے  خلاف  اور  کرپشن کے  خلاف میری جنگ ایک تاریخ بنتی جا رہی ہے۔

    وزیر تعلیم شری ناگندر جھا کی ’’پروفیسر شپ‘‘  کے  متعلق آپ کو مکمل رپورٹ بھیج چکا ہوں، ان کے  تعلق سے  ایک  اور  دلچسپ بات سامنے  آئی ہے اور وہ یہ کہ وہ میتھلی زبان کے  استاد رہے اور اسی زبان میں  اُنھوں  نے  پی ایچ ڈی کی ڈگری لی، لیکن کہاں  سے؟ بھاگلپور یونیورسٹی سے  کہ جہاں  میتھلی کا شعبہ ہے اور نہ کوئی میتھلی کا پروفیسر ہے!!


٭٭٭٭٭٭٭٭


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل بغیر تصویروں کے                                                         ٹیکسٹ فائل

ورڈ فائل مع تصویروں کے

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول