صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
محمد دارا شکوہ (ایک تعارف)
شکیل الرّحمٰن
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
رابندرناتھ ٹیگور نے تحریر کیا ہے کہ شاہِ جہاں کے آنسوؤں کا ایک قطرہ تاج محل میں تبدیل ہو گیا!
جب ضعیف شاہِ جہاں نے اپنے چہیتے بیٹے دارا شکوہ کے کٹے ہوئے سر کو اپنے سامنے طشت میں دیکھا تو کون جانے اس کی آنکھوں سے لہو کا جو قطرہ ٹپکا وہی لہو کا سیلاب بن گیا اور اس سیلاب نے سلطنتِ مغلیہ کے خوبصورت نظام کا وجود ہی ختم کر دیا ہو!‘‘
یہ واقعہ اگست ۱۶۵۹ء کا ہے، محمد دار اشکوہ کی عمر اُس وقت صرف ۴۴ سال تھی۔
محمد دارا شکوہ کی پیدائش کی تاریخ ۲۰؍مارچ ۱۶۱۵ء ہے۔ ۳۰؍اگست ۱۶۵۹ء کو اُسے قتل کر دیا گیا۔ کٹا ہوا سر شاہِ جہاں کے سامنے رکھا گیا اور دھڑ کو مقبرۂ ہمایوں میں دفن کر دیا گیا، کہاں؟ کسی کو معلوم نہیں، کوئی نہیں جانتا دار اشکوہ کو مقبرۂ ہمایوں میں کہاں دفن کیا گیا ہے۔
شاہِ جہاں کی دو بیٹیاں تھیں حور الانسا بیگم اور جہاں آرا بیگم (دارا شکوہ نے تین بہنوں کا ذکر کیا ہے) ایک بیٹے کی آرزو لیے شہنشاہ درگاہِ عالیہ حضرت غریب نواز خواجہ معین الدین چشتیؒ پہنچا اور اللہ پاک کے رحم و کرم کی بھیک مانگی، دعا قبول ہوئی۔ ۳۰؍مارچ ۱۶۱۵ء (سوموار کی شب، ۲۹؍صفر ۱۰۲۴ھ) کی پیاری خوبصورت شب تھی۔ بیگم ممتاز محل نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ شہزادہ خرم (شاہِ جہاں) اور بیگم ممتاز محل کی مسرتوں میں اضافہ ہوا۔ شہنشاہ جہانگیر نے ننھے خوبصورت فرشتے کا نام رکھا دارا شکوہ! ابوطالب کلیم نے قصیدہ کہا ’’گل اوّلین شاہی‘‘ سے تاریخ نکالی یعنی باغِ شاہی کا پہلا پھول!
بگوش دل از بحرِ تاریخ آمد
گل اوّلین گلستانِ شاہی
شہزادہ دارا شکوہ نے اپنی کتاب ’سفینتہ الاولیا‘ میں اپنی پیدائش کے تعلق سے لکھا ہے کہ اس فقیر نے اجمیر شریف کے قریب ساگر تال جھیل کے قریب جنم لیا۔ صفر کے مہینے کا آخری وقت تھا۔ ۱۰۲۴ھ کا سال، سوموار کی درمیانی شب۔ میرے والد کی تین بیٹیاں تھیں۔ ایک بیٹے کی آرزو تھی۔ میرے والد کی عمر ۲۴ سال تھی، حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ سے گہری عقیدت رکھتے تھے، لہٰذا درگاہِ عالیہ پر حاضر ہوئے، دعا کی۔ اللہ پاک کے کرم سے میری پیدائش ہوئی۔ اس غلام کی پیدائش ایک بڑی خواہش کی حقیقت میں تبدیلی تھی۔ میرے والد نے اللہ پاک سے دعا کی کہ خدا اس کو عزت بخشے، وہ عمر بھر نیک کام کرے۔ اُسے لوگوں کی محبتیں حاصل ہوں۔ کون جانے اجمیر شریف میں دارا شکوہ کی پیدائش کا کرشمہ ہی ہو کہ وہ عمر بھر ایک صوفیانہ ذہن اور طرزِ عمل کے ساتھ زندہ رہا۔
دارا شکوہ کی ابتدائی زندگی اور اس کی تعلیم و تربیت کے تعلق سے خبر کم ہے۔ مغل تاریخ دانوں اور دستاویزات مرتب کرنے والوں نے سیاسی واقعات اور سیاسی معاملات میں دارا شکوہ کی شمولیت سے زیادہ دلچسپی لی ہے۔ شاہِ جہاں نے چونکہ اسے ہمیشہ بہت عزیز رکھا اس لیے توقع ہے کہ اس کی بہتر تعلیم و تربیت کا خوب خیال رکھا گیا ہو گا۔ ابتدا میں اُس دور کے دو بڑے علماء مُلّاعبد اللطیف اور شیخ میرک سے تعلیم حاصل کی۔ دارا شکوہ نے اپنی تصنیف ’سکینتہ الاولیا‘ میں اپنے استاد شیخ میرک کا ذکر کیا ہے۔ وہ اپنے استاد کی شخصیت اور اُن کے علم اور حقائق پر ان کی گہری نظر سے بہت متاثر تھا۔ حضرت شیخ نے اپنے شاگرد کو زندگی کی عمدہ اور اعلیٰ قدروں سے آشنا کیا۔ صرف یہی نہیں دارا شکوہ کی عمر جیسے جیسے بڑھتی گئی حضرت شیخ میرک کی صحبت میں اس کا ’وِژن‘ بھی کشادہ ہوتا گیا۔ شیخ میرک عربی، فارسی زبانوں کے بڑے عالم تھے۔ تفسیر پر بھی اُن کی نظر گہری تھی، لہٰذا بہت کم عمر میں دارا شکوہ نے عربی اور فارسی زبانوں پر قدرت حاصل کر لی۔ عمر بڑھی تو فارسی زبان میں شاعری بھی کرنے لگا اور پھر دیوان مرتب ہو گیا۔ اس کی تصانیف فارسی زبان میں ہیں۔ مثلاً ’سفینۃ الاولیا‘، ’سکینۃ الاولیا‘، ’حسنات العارفین‘، ’مجمع البحرین‘ وغیرہ۔ ’
’سرِّاکبر‘ (۱۶۵۷ئ) میں باون اُپنشدوں کے ترجمے ہیں جو اُس دور کے بعض برہمن عالموں کی مدد سے کیے گئے ہیں۔ ’لگھو یوگ وسست (Laghu Yoga Vasistha) (۵۷-۱۶۵۶ء) یوگ اور صوفیانہ تجربوں کی ایک بہت قیمتی تحریر سمجھی جاتی ہے۔ دارا شکوہ کہ جس کی گہری دلچسپی تصوف اور صوفیانہ خیالات و افکار سے تھی ’یوگ وسست‘ کے خیالات سے باخبر ہوا تو نظامی پانی پتی کے فارسی ترجمے کو پڑھا۔ اس فارسی ترجمے کا مطالعہ کرتے ہوئے اس نے نوٹس تیار کیے، صوفیانہ خیالات اور ’یوگ وسست‘ کی یکسانیت کی جانب بھی اشارے کیے، تکنیکی اصطلاحوں پر غور کیا، ان کی وضاحت بھی کی۔ اُن کا خیال تھا کہ ’یوگ وسست‘ کے خیالات کی نزاکت اور لطافت کا خیال کم رکھا گیا ہے ساتھ ہی سنسکرت زبان کی بعض اہم اصطلاحوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ ۱۶۵۶ء میں اس نے فارسی ترجمے کا حکم صادر کیا، ترجمہ کس نے کیا معلوم نہیں۔ کہا جاتا ہے کبھی کسی زمانے میں ایک رِشتی تھے وسست (Vasistha)، کسی راجکمار رام چندر کے گرو تھے، راجکمار ہی کے لیے یہ کتاب لکھی تھی تاکہ راجکمار کو ہندوستانی یوگ اور قدیم صوفیانہ تجربوں کی بہتر خبر مل سکے۔ شہزادہ دارا شکوہ نے ’یوگ وسست‘ کے فارسی ترجمے کے حکم سے قبل اپنے ایک خواب کا ذکر کیا ہے۔ کہتا ہے: ’’میرے خواب میں دو رشی آئے، ایک کا قد لمبا تھا، دوسرے کا چھوٹا، جس کا قد لمبا تھا وہ رشی وسست تھا کہ جس کے بال سفید تھے، دوسرا کہ جس کا قد چھوٹا تھا وہ راجکمار رام چندر تھا، میں نے دونوں کا استقبال کیا۔ رشی وسست نے آشیرواد دیا اور اپنے شاگرد سے کہا دارا شکوہ میرا بھائی ہے، ہم دونوں سچائی کی تلاش میں ہیں۔ راجکمار میرے سینے سے لگا۔ رشی وسست نے رام چندر کو شیرینی دی جسے میں نے چکھ لی۔ اس سحر انگیز خواب کے بعد ہی میری بے تابی بڑھی اور ’یوگ وسست‘ کے ایک عمدہ فارسی ترجمے کے لیے بے چین ہو گیا۔‘‘ اس کے حکم کے بعد چند برہمنوں کی مدد سے کتاب کا ترجمہ ہوا۔
اس کے بعد کئی کتابوں کے فارسی ترجمے ہوئے۔ ’گلزارِ حال‘ کے نام سے ولی رام نے کرشن مشرا کے فلسفیانہ رنگ کے ڈرامے کا ترجمہ کیا۔ ویدانت پر ایک کتاب لکھی گئی، یہ بھی ترجمہ تھا۔ کسی سیتا رام نے کیا تھا۔ چندربھان جو دارا شکوہ کا میر منشی تھا اس نے بھی ایک کتاب کا ترجمہ کیا۔ بھگوت گیتا پر ایک تبصرہ کیا گیا ’میراۃ الحقائق‘ کے نام سے۔ یہ تبصرہ عبدالرحمن چشتی کا تھا۔
٭٭٭