صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


ڈنکے کی چوٹ

نوید ظفر کیانی

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                 ٹیکسٹ فائل

غزلیں



میں جب بھی فون کرتا ہوں ، وہی انگیج ٹوں ٹوں ٹوں

رقیب روسیاہ سے اور گھنٹوں بات ،کیوں کیوں کیوں


جہاں میں ساتھ ہی آئے مگر تقدیر کیا لائے

وہی ہیں آپ چھم چھم چھم وہی ہم لوگ کھوں کھوں کھوں


وفا کی آزمائش میں یہی سرگم کے دو سرُ ہیں

دل مجنون کی دھک دھک دھک سگِ لیلیٰ کی بھوں بھوں بھوں


وہ جب بھی بات کرتے ہیں تو بے اوقات کرتے ہیں

کسی کی بھی نہیں سنتے ، نہ چاں چاں چاں نہ چوں چوں چوں


نہ روسی ہوں نہ چینی ہوں مگر جب رات سو جاؤں

کبھی کرتا ہوں خر خر خر کبھی کرتا ہوں شوں شوں شوں


کسی کو مارا مرچوں نے کسی کو دل کی ٹیسیوں نے

وہی یاروں کی سی سی سی وہی پیاروں کی سوں سوں سوں


تمہیں کہہ دو یوں جیون کا بنے گا خاک دو گانہ

میری سائیکل ہے ٹن ٹن ٹن تیری گاڑی ہے پوں پوں پوں


عمریا کے کسی بھی دن ، تجھے پہنچوں یہ ناممکن

تیری تیزی ہے زن زن زن تیری پھرتی ہے زوں زوں زوں


کبھی شاعر کہیں پھنکا ، ادیبوں نے کبھی دھنکا

بنے نقاد جوں جوں جوں اڑے ہیں بال توں توں توں


اگر آیا ترا روگی ، سرِ بزمِ سخن ہو گی

جہاں والوں کی کھی کھی کھی ظفر صاحب کی روں روں روں

٭٭٭


ساس کو دیکھا تو ہر جی دار پنکچر ہو گیا
گن کے آگے سینہءتلوار پنکچر ہو گیا
 عشق کی ہٹی میں ڈاکہ مار کر بھاگے تھے ہم
چوک پر آ کر دلِ غدار پنکچر ہو گیا
 راس نہ آئی کسی انگنائی کی آب و ہوا
ہر کہانی میں مرا کردار پنکچر ہو گیا
 عزم تھا کہ چھو کے آنا ہے کسی معراج کو
فورچن تھا کہ گلی کے پار پنکچر ہو گیا
 آج ہی مورال کی ٹیوننگ کرا کر لائے تھے
قیمتیں سن کر مگر یکبار پنکچر ہو گیا
 کوئی غربت میں بھی پھولا ہے غبارے کی طرح
کوئی پا کر عزتِ دربار پنکچر ہو گیا
کار تھی مانگے کی لیکن شان تو بن ہی گئی
کار کو دیکھا تو ہر بیکار پنکچر ہو گیا
 دل کی ڈکی میں تو اسٹیپنی نہیں ہے صبر کی
یہ کہاں آ کر ہمارا پیار پنکچر ہو گیا
 ارتقاء کی روڈ پر آ تو گئی ہے زندگی
جی حضوری سے مگر پندار پنکچر ہو گیا
 ہم گلوکاری کا موٹر وے سمجھتے تھے اُسے
جس حلق میں آن کر ملہار پنکچر ہو گیا
 بے گناہی پر بھی لترولا گیا ہے رات بھر
جا کے تھانے میں ہمارا یار پنکچر ہو گیا
 شام کو اپنے دولہا کے ساتھ نکلی تھی کہیں
دیکھ کر گلنار کو گلزار پنکچر ہو گیا
 اِک ذرا جوڈو کراٹے کھیل بیٹھے تھے رقیب
سر ہمارا برسرِبازار پنکچر ہو گیا
کس طرح چلتا یہاں کی ڈب کھڑبی روڈ پر
کار کا ٹائر تھا کچھ خوددار پنکچر ہو گیا
 خطۂ لاہور سے منجوا کے لایا تھا زباں
جب سنے مجھ سے مرے اشعار پنکچر ہو گیا

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   

 ورڈ فائل                                                                 ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول