صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


داغ داغ اُجالے

ڈاکٹر ابنِ فریدؔ 

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                          ٹیکسٹ فائل

ایک جہاں

سامنے  میز پر خالی پیالی رکّھی ہوئی تھی اور وہ کہنی  ٹیکے  سگرِٹ کے  دھوئیں  کے   مرغولے   بنا بنا کر چھوڑ رہا تھا اور  گراموفون کی آواز کے  ساتھ تخیّلات کی خلاؤں  میں   پرواز کرنے   کی کوشش کر رہا تھا۔ لیکن وہ خالی پیالی  برابر اس کے  ذہن میں  کھنک پیدا کرتی رہی اور خیالات کا سیلِ بے  پناہ  سگرِٹ کے  دُودِ پریشاں  کی طرح اُس کے  بوجھل  ذہن  سے  اٹھتا رہا۔ آج کئی دنوں  سے  وہ عجب خلجان میں  پھنس گیا تھا۔ جو اس کے  تفکّرات میں  رفتہ رفتہ  پرورش پا کر اتنا تنومند ہو چکا تھا کہ وہ اسے  کسی طرح زائل نہیں  کر سکتا تھا اور اب شعوری طور پر اس کا  مقابلہ کئے  بغیر اس کے  لئے  کوئی مضر بھی نہ تھا۔ مگر اس وقت ایک دماغی انتشار  اسے  بیکل کر رہا تھا اور اس کے  ساتھی ارشد کے  جملے  اس کے  تفکّراتی وجود سے  ٹکرا رہے  تھے۔ ۔ ۔  ’’بشیر!۔ میرا کہنا مانو، ذرا اپنی زندگی کا جائزہ لو، اور پھر اپنے  دل سے  پوچھو کیا یہی زندگی ہے  جس کے  لئے  ہم تگ و دو کرتے  ہیں ؟ کیا ہمیں بے  مصرف  ہی زندہ رہنا ہے ؟ کیا  اس طرح  جینا  حیوانیت سے  کسی طرح  افضل ہے ؟

اس سے  پہلے  بھی ان جملوں  نے  اس کے  یکساں  افعال کی راہ میں   کھڑے  ہو کر اسے  جھنجھوڑا تھا۔ اسے  چونکایا تھا، اسے  بیدار کرنے  کی کوشش کی تھی۔  مگر اس وقت اس کی ذرا سے  بے  توجہی نے  انھیں  بے  اثر کر دیا تھا۔ لیکن جیسے  رفتہ رفتہ اب وہ اس کی  قوّتِ استدلال میں  گھر کرتے  چلے  جا رہے  تھے۔ یہاں  تک کہ اس  وقت وہ اُس کے  لئے  بہت  بڑے   ذہنی  قرار کی وجہ بن گئے  تھے۔ معاً ریکارڈ کے  اختتامی  ساز نے   اُس  میں  اضطرار سا پیدا کر دیا اور اس نے  دوسری  پیالی چائے  کی لئے   آرڈر  دیدیا اور سامنے  رکھی ہوئی خالی پیالی کے  خلاء میں  جھانکنے   لگا۔ وہ کھنک جو وہ  خالی پیالی اس کے  ذہن میں  پیدا کر رہی تھی کم ہوتی نظر نہیں  آ رہی تھی۔ اس نے  پھر اجتناب کی کوشش کرتے  ہوئے  کاؤنٹر کی طرف دیکھا جہاں  لوگوں  میں  حیوانیت ابھارنے  کے  لئے  مغربی لباس میں  ملبوس لڑکی کھڑی ہوئی ایک اور فحش فلمی ریکارڈ بجانے  لگی تھی۔ اور اپنی طرف اٹھتی ہوئی  ہر نظر کے  جواب میں   پُرہوس مسکراہٹ بکھیر رہی تھی۔ جس میں  وہ اس وقت بھی  تصنّع، فریب اور ایک خفی تجارتی انداز کو نمایاں  طور پر دیکھ رہا تھا۔ اس نے  کراہت سے  نظریں  پھیر لیں۔ زنانہ مغربی لباس نے  جیسے  اس کو زنانہ  ہسپتال کے  جنرل وارڈ میں  لے  جا کر کھڑا کر دیا۔ دواؤں  میں  ملی جُلی  صفائی اور سسکتی ہوئی مریضاؤں  کی کراہتی ہوئی بھنبھناہٹ میں  ہم آہنگ قدموں  کی آواز اس کے  کانوں  میں  ٹپکنے  لگی۔ اسے  محسوس ہوا کہ کوئی اپنی ملامت سے   زیادہ صاف پوشاک میں  نرس اُس کے  پاس  سے  گزر رہی ہے  اور اُس کے  نپے  تُلے  قدموں  کی آواز جیسے  یہ تقاضا  کر رہی ہے  کہ کوئی  ہاتھ بڑھا کر  اس کا راستہ روک دے  اور اس کے  غلیظ باطن میں  اور  زیادہ غلاظت  اتار دے۔ اُس نے  اس وقت  اپنی تصوّر پر  بُری  طرح   جھنجھلاہٹ محسوس کی۔ معاً اس کی نظروں  کے  سامنے   بوسیدہ  ٹاٹ کا پردہ   لرزنے  لگا جس کے  بارے  میں   اُسے  یقین تھا کہ وہ برابر اُسی  طرح  بڑی بڑی دراروں  والے   دروازے  پر لٹکتا رہتا تھا۔ اور جو اگر ہلتا تھا تو صرف تیز ہواؤں  کے  تھپیڑوں  سے  یا پھر  جب وہ صبح دفتر جاتے  وقت  اُسے  جھنجھلاہٹ کے  ساتھ جھٹک دیا کرتا تھا۔ اور بڑبڑاتا ہوا چلا جایا کرتا تھا۔ اور پردہ اس کے  خیال کے  مطابق  اس کے  پیچھے  اُس کے  تفکّرات کے  ایک ہجوم کو ڈھک لیتا تھا، مگر کون جانے  اُسے  کبھی ’’لہو رنگ‘‘ ناخنوں  والی انگلیاں  ہٹا دیتی ہوں  کچھ نیم بیباک  چہرے  پردے   کے  اُس پار سے  پردے  کے  اِس  پار آنے  کی  سہمی سی کوشش کرتے  ہوں۔ اور پھر کچھ سوچے  بغیر پردے  کے  پیچھے  چلے  جاتے  ہوں۔ بہرحال وہ کسی دن بھی تو  اپنے  ہونٹوں  پر کھلتی ہوئی مسکراہٹ کو لے  کر اُس پردے  کے  عقب سے  نمودار نہ ہوا۔ اکثر اس نے  سوچا کیا اس پردے  کے  پیچھے  صرف جہنّم ہے ؟۔ کیا اسی وجہ سے  جب وہ اندر داخل ہوتا ہے  تو ساری مسرّت سمٹ کر  رُوح کے  کسی نا معلوم گوشے  میں   چھُپ رہتی ہے۔ کیا پردے  کے  تاروں  میں  کربناک الجھنیں  بُنی ہوئی ہیں۔ ایسے  لمحہ اس کا دل چاہتا کہ پردے  کو نوچ کر پھینک دے۔  مگر وہ سہم جاتا۔ دروازے  کی پُر استہزاء دراریں  اُس کا تمسخر اُڑانے  لگتیں۔ ہر طرف سے  گھیر کر  جکڑ لیتیں  اور وہ گھبرا کر اس جہنّم میں  قدم رکھ دیتا۔ جہاں  کی فضا میں  ہسپتال سے  بھی زیادہ کرب انگیز خاموشی تھی اور جہاں  وہی ہسپتال کی سی مریضا نہ فضا  چاروں  طرف محیط تھی۔ بس دو چار چلتے  پھرتے  ڈھانچے  تھے  جو حالانکہ  نحیف نہ تھے۔ لیکن ان کی روح چیسے  کھوکھلی تھی۔ اُن میں  کچھ آرزوئیں  تھیں  جن کی مطابقت کے  لئے  ان میں  ہمّت نہیں  تھی۔ ان میں  چند ایک خواہشات تھیں  جن کو وہ کمالِ جسارت سے  بھی زبان پر نہیں  لا سکتی تھیں۔ شاید ان کو لاشعوری طور پر  خدشہ  سا پیدا ہو جاتا ہو کہ ان کی  تمنّائیں، آرزوئیں  خلاؤں  میں  تیر رہی ہیں، اُن کے  آگے  کوئی متعیّن راہ نہیں  ہے۔ اور وہ حقیقت کی کسی نہ معلوم چٹّان سے  ٹکرا کر پاش پاش ہو سکتی ہیں۔

کم از کم  اگر وہ اپنے  بارے  میں  یہ نہ سوچتے  ہوں  تو وہ ان کے  بارے  میں  ضرور اب تک یہ سوچتا رہا تھا۔ اسی وجہ سے  اس کو ان سب سے   ہمدردی  تھی جن میں   اس کی بہنیں  تھیں، اس کی بیوی تھی اور چند ایک اور ویسی ہی رشتہ دار تھیں  جو اپنے  ماحول کے  دھندلکے  میں   بے  وجہ کچھ  تلاش کرنا چاہتی تھیں۔ اور شاید وہ اس وقت تک اپنی اسی تلاش و جستجو میں  منہمک  ہیں  اور اس وقت تک منہمک رہیں  گی جب تک ان کو یہ یقین نہ ہو جائے  کہ وہاں  تو اندر باہر ہر جگہ  خلاء ہی خلاء ہے، وہاں  کسی حقیقت کا  وجود نہیں، کوئی طلوع نہیں، کوئی سحر نہیں، کوئی روشنی کی کرن نہیں، سوائے  مہیب  تاریکی کے، گہری ظلمت کے!۔ یہ خیال کر کے  وہ ایک سیمابی کیفیت میں  مبتلا ہو جاتا تھا اور عجب طرح کی پشیمانی مسلّط ہو جاتی تھی۔ وہ اپنی عزیزوں  میں  سے   کسی سے  بھی نظریں  نہ ملا سکتا تھا، اور یوں  ایک جھنجھلاہٹ پیدا ہو جاتی تھی۔ وہ بے  طرح تُرش مزاج ہو جاتا۔

اور اب نہ معلوم کیوں  اس کو ایسے  ماحول سے  چڑ ہوتی چلی جا رہی تھی۔ وہ کبھی ان بے  کیف مصروفیات کو دیکھ کر اپنے  دماغی توازن کو  قائم نہ رکھ سکتا تھا۔ شاید  اس  خجالت ہی کی وجہ سے  وہ گھر میں  قدم رکھتے  ہی خود سے  بیزار ہو جاتا اور گھبرایا ہوا ہر بات کا جواب چڑ کر دیتا تھا۔ جیسے  اگر وہ یہ نہ کرتا تو بات کرنے   والے  کی تکّا بوٹی کر ڈالتا۔ مگر  اُس  نے  کبھی ایسی مذموم حرکت نہ کی۔ وہ تو اس سرد فضاء میں  حرارت پیدا کرنے  کا  کوئی طریقہ مہیّا کرنا چاہتا تھا نہ کہ  خود اس کو تباہ کر کے  اپنی بزدلی کا ثبوت دے  اور اپنی بلند ہمّتي کا گلا گھونٹ دے۔ اسی طرح ارشد کے  جملوں  کے  ذہن میں  گونجنے  سے  پہلے  اُس نے  بارہا کوئی موہوم سی خوہش کی۔ مگر جب بھی  ایسے  خیالات کا  جواب اس کے  دماغ میں  اٹھا تو محدود آمدنی نے  شریر بچّے  کی طرح اس حباب کو چھو لیا اور وہ پھر دماغ کی پراگندہ سطح ٹوٹ کر وہیں  پر غائب ہو گیا۔ وہ باور کرتا رہا کہ وہ حباب نہیں  بلکہ اس کے  روشن مستقبل کے   قصر و ایوان کے  سیمیائی گنبد ہیں۔ پھر وہ اب تک ان  سیمیائی  گنبدوں  کے  خوب میں  کھویا رہا۔ اور اس وقت ان خوابوں  کا سحر ٹوٹتا جا رہا تھا۔

ریکارڈ پھر ختم ہونے  والا تھا۔ وہ فوراً بڑبڑاتا ہوا اور دوسری میزوں  پر بیٹھے  ہوئے  لوگوں  کے  استعجاب کو نظر انداز کرتا ہوا رستوران کے  مالک سے   CREDIT کہتا ہوا نکل آیا اور وہ پُرہوس پیکر جو اُس میں   بے  پناہ کراہیت اور ذہنی طوفان برپا کر چکا تھا اس کے  تخیّلی دائرے  سے  رینگتا ہوا  کسی نا معلوم گوشے   میں  چھپ گیا۔ ذہن برابر اسی انتشاری ہیجان میں  ہچکولے  کھا رہا تھا۔ بے  بس سا۔ جیسے  کسی جھمیلے  میں  پھنس کر ہر طرف کے  دباؤ سے  پستا چلا جا رہا ہو۔ اور اپنی  انتہائی کوشش کے  باوجود بھی مجبور ہو۔ اُس نے  اپنے  ہونٹوں  کو  زور سے  بھینچ لیا۔ اس کی نسوں  میں  چنگاریاں  سی چٹخنے  لگیں، اور وہ تیز تیز چلنے  لگا لیکن ایک دم اس کے  قدم دھیمے  پڑ گئے  اور جسم ڈھیلا پڑ گیا۔ وہ سوچنے  لگا، مجھے  کہاں  جانا ہے ؟ دماغ پر کافی زور دینے  کے  بعد بھی جب وہ کوئی فیصلہ نہ کر سکا تو بے  ارادہ  کتاب کی دوکان میں  گھُس گیا۔ دوکان دار نے  اسے  معنی خیز نظروں  سے  دیکھا اور مسکرا کر اپنی رسیدوں  اور رجسٹروں  کو اُلٹنے  پلٹنے  لگا۔ وہ ہر رسالے  کی فہرست مضامین کو اس طرح دیکھنے  لگا جیسے  اُن کے  معیار کا اندازہ لگانا چاہتا ہو۔ حالانکہ وہ اچّھی طرح جانتا تھا کہ کاغذ اور روشنائی اور رنگوں  کا  یہ بھاری انبار  دیکھنے  ہی میں  خوشنما معلوم ہوتا ہے  ورنہ اس کی پہنائیوں  میں  ہزاروں   غلیظ اور رکیک جذبات اس طرح سڑرہے  ہیں  کہ ان کا تعلّق دماغ کے  احساسِ جمال کو  ایک ہی  بھپکے  میں  زائل کر دیتا ہے۔ اور پھر ان غلاظتوں  میں   خواہ کوئی کتنے  ہی عرصے  لوٹتا رہے  وہاں   کسی قسم کی اعلیٰ و ارفع حیّاتی تحریک نہ ہو گی۔

اُسے  اس وقت نہ معلوم کیوں  بے  اختیار بساندے   کے   پھول یاد آ رہے  تھے  جن کے   ایک ہی گچھّے  میں  گلابی، پیازی، سفید، سُرخ اور متنوّع رنگ کے   چھوٹے  چھوٹے   پھول ہوتے  ہیں  اور جن کو بچپن میں  کسی بے  کاشت زمین پر  کھِلے  ہوئے  دیکھ کر  وہ بے  طرح  للچا اٹھتا تھا۔ اور اس کا دل چاہنے  لگتا تھا کہ وہ ان کے   بہت سے  گچھّے  جمع کر لے  اور پیروں  ان سے  کھیلتا رہے۔ اسے  وہ کتنے  بھلے  معلوم ہوتے  تھے۔ بالکل چھوٹے  چھوٹے  سے  متنّوع رنگ کے  پھول ایک ہی  گچھّے   میں۔ مگر جب ایک بار اس  نے  اس کی خاردار ٹہنیوں  میں  گھُس کر  ان پھولوں  کو توڑا اور اس کی روئیں  دار پتّیوں  نے  اُس کے  چہرے  پر خراش پیدا کر دی  تو جھنجھلاہٹ کے  باوجود اُس نے  انھیں  سونگھ لینا چاہا۔ لیکن ناک تک لے  جاتے  ہی اُسے  یہ محسوس ہوا کہ چیسے  لاتعداد بدبو دار برساتی کیڑے  اُس کے  دماغ  میں  مسل دیئے  گئے  ہوں۔ اس  کا  جی متلانے  لگا۔ اُس نے  وہیں ان رنگین  خوبصورت  چھوٹے  چھوٹے  پھولوں  کو گھاس پر نفرت کے  ساتھ پٹخ دیا اور اپنی با ہوں  اور چہرے  کو  سہلاتا ہوا گھر چلا  آیا۔ اور اس دن سے  جب بھی وہ بساندے   کے  پھولوں   کو دیکھتا تو اس کا دماغ پھٹنے  لگتا اور اس کے  دل  میں  یہ خواہش کروٹیں  لینے  لگتی کہ اے  کاش ان خوش وضع گچھّوں  میں  ایسی  مکروہ بدبو نہ ہوتی۔

اس وقت ان کتابوں  سے  بھی اسے  ویسے  ہی جی متلا دینے  والی بدبو نکلتی محسوس ہو رہی تھی جو متوجہ  کن انداز میں  آراستہ کی گئی تھیں۔ اس کے  دل میں  ایک ویسی ہی خواہش ابھرنے  لگی تھی کہ اے  کاش ان خوش وضع صفحات میں  سفلی جذبات کی کریہہ بدبو محلول کر کے نہ پیش کی جاتی۔ لیکن پھر بھی وہ رسالے  الٹتا پلٹتا رہا۔ نہ معلوم اُن سُرابوں  میں  کیا تلاش کرتا رہا اور کتابوں  کی شکل و صورت دیکھ دیکھ کر اپنے  چہرے  پر  طرح طرح کے  نقوش پیدا کرتا رہا اور یہ سب کچھ محض اس وجہ سے  کہ وہ شام کے  بے  مصرف وقت کو کسی نہ کسی طرح کاٹ دے  تاکہ گھر کی مردہ فضا میں  غنودگی طاری ہونے  سے  قبل قدم  نہ رکھے۔

وہ گھر کی فضا کو مردہ ہی سمجھنے  پر مجبور ہو گیا تھا۔ اس نے  اپنے  اس ذہنی ہیجاب سے  پہلے  بھی اُسے  ایسا ہی سمجھا تھا۔ کیونکہ وہ اب تک یہ سوچتا چلا آیا تھا کہ وہاں  علاوہ مادّی فکروں  کے  کچھ بھی تو نہ تھا۔ اس نے  چاہا تھا کہ اُن بھوری بھوری دیواروں  پر دھُندلکے  چھا جائیں۔ اور وہ دیواریں، وہ دروازے، وہ دریچے، وہ کمرے، وہ دالان اور وہ پورا ماحول اس دھندلکے  میں  چھپ جائے۔ اسے  یہ معلوم ہی نہ ہو سکے  کہ وہ ایک ایسے  قبرستان میں  کھڑا ہے  جہاں  مردہ ڈھانچے  چل پھر رہے  ہیں۔ بلکہ وہ چاہتا تھا کہ ہر طرف متبسّم ہو۔ نغمے   ہوں  اور  ایسا کچھ ہو کہ وہ اپنی کم مائیگی کا کبھی احساس بھی نہ کر سکے  لیکن یہ کیسے  ممکن ہو سکتا تھا؟۔ وہ مسکراتا اور حقارت سے  گردن کو خم کر دیتا اور قلم کی سنہری چمکتی ہوئی کلپ کو اس طرح دیکھنے  لگتا جیسے  اس نے  ہی اُسے  زندہ رکھا ہو، اور زندہ رکھ رہی ہو۔ اوہ اس کی گرفت کو  اپنے  سینے  کی تہوں  میں  دھڑکتے  ہوئے  محسوس کرنے  لگتا۔ مگر اب جیسے  اُس کو اس تصوّر پر ہنسی آ رہی تھی جو اپنی تکنیک تک  پہونچنے  کے  بعد فنا ہو جانے  کے  سوا کچھ بھی نہ کر سکتی تھی۔ اور پھر ان تبسّموں  اور نغموں کے  پیچھے  جو کراہیں  اور چیخیں  گھٹتیں  وہ اسے  اور بھی مریض بنا دیتیں۔ اس نے  اس خلجان میں  بھی اطمینان محسوس کیا کہ اس کی اس آرزو نے  شرمندہ تعبیر نہ ہو کر اسے  ایک فریب تک پہونچنے  سے  بچا لیا ہے۔

اس نے  کتنی بڑی غلطی کی تھی کہ وہ اب تک ایسی تمنّاؤں  اور آرزوؤں  کے   سہارے  جیتا رہا تھا جنھوں  نے  اسے   ناکارہ کر دیا تھا۔ اسے  خود احساس تھا کہ اس نے  گزرتے  ہوئے  وقت کے  ساتھ ہمیشہ اپنے  اندر خوف سا محسوس کیا تھا اور آنے  والے  دور کا  استقبال کرتے  ہوئے  جھجکتا تھا۔ اس میں  اتنی ہمّت نہیں  تھی کہ وہ اپنے  قدموں  پر اعتماد کر سکے۔ بلکہ جب کوئی قوّت اس کو سہارا دیتی اور وہ  وحشت زدہ  سا کھڑا ہونے  کی کوشش کرتا تو اس کے  گھٹنے  کانپنے  لگتے  اور غیر مانوس لطیف فضاؤں  کے  جھونکوں  سے  کپکپی سی محسوس کرنے  لگتا۔ پھر وہ کسی طرح بھی نہ کھڑا ہو سکتا اور دھڑام سے  مردہ لاش کی طرح اسی سطح پر آ گرتا جہاں  وہ  کچھ نہ کر سکتا تھا بلکہ ماحول اس سے  کراتا تھا پھر وہ خجل سا سوچنے  لگتا کیا  میں  بُزدل ہوں ؟ کیا میری رگوں  میں  خون نہیں  دوڑ رہا ہے ؟ جب وہ ایسے  ہی افتادہ پا لوگوں  کو دیکھتا تو ایک گہری سانس لیتا کہ یہ ان کی فطرت ہے  وہ دنیا میں  کچھ کرنے  کے  لئے  نہیں  بلکہ بوجھ گھسیٹنے  کے   لئے  پیدا کئے  گئے  ہیں۔

اُس نے  شدّت کے  ساتھ ایک اذیت سی محسوس کی۔ اور وہاں  کتابوں  کی دوکان میں  رسالوں  کے  ورق الٹتے  پلٹتے، کتابوں  کو  گھورتے  گھورتے  اور سوچتے  سوچتے  اس پر بوجھل پن سا  سوار ہو گیا تھا۔ اس لئے  وہ وہاں  سے   فوراً نکل آیا اور کچھ سوچے  بغیر  دریا کے  کنارے  کی طرف  چلنا شروع کر دیا۔ مگر  وہ بساندے  کے  پھولوں  کی سی بدبو اور ماحول کی اندھی تگ و دو چکّی کے  پاٹوں   کی طرح اس کے  گرد  گھر گھرانے  لگی۔ اور وہ محسوس کرنے  لگا  کہ جیسے  وہ ان میں   پستا چلا جا رہا ہے۔ اس کے  ریزے  ریزے  ہو گئے  ہیں  اور وہ آٹے  کے  ڈھیر کی طرح زمین پر بکھر جانے  ہی والا ہے۔ اس نے  اپنے  شانوں  کو اس طرح جھٹکا دیا کہ جیسے  وہ پاٹ اس کے  کندھوں  پر  ہی رکھے  ہوں  اور ایک جھٹکے  میں  ہی پکّی سڑک پر گر کر پاش پاش ہو جائیں  گے۔ لیکن وہ شانوں  سے  کچھ اُبھر گئے  اور پھر اسی طرح  چلنے  لگے  اور اس نی اس لمحہ اسی میں  عافیت سمجھی کہ وہ ان کی طرف سے  بے  پرواہ ہو جائے۔ کیوں  کہ وہ اس کے  بس کے  نہیں  ہیں۔

لیکن دریا کے  کنارے  پہنچ کر بھی اس کے  ذہنی انتشار  نے  اس کا ساتھ نہ چھوڑا۔ بہت ممکن تھا  کہ وہ چیخ چیخ کر رونے  لگتا، اور ضدّی بچّوں  کی طرح خاک پر ایڑیاں   رگڑنی لگتا۔ لیکن اس نے  محسوس کیا کہ یہ تو  وہ اس وقت سے  کرتا چلا آیا ہے  جب  سے  اس نے  خود کو غیر ارادی طور پر خواہشات  اور جذبات کی تند رو کے  سپرد کر کے  بے  بس تصوّر کر لیا ہے۔ اس کی روح پستی کے  اسی لمحہ  سے  روتی چیختی چلی آئی ہے۔ مگر نہ وہ خود  اس کو دلاسا دی سکا اور نہ وہ  تمنّائیں  جن کے  سہارے  اس نی نہ معلوم کتنی ہی حسین بستیاں  اپنے  تخیّل میں  بسا رکھی تھیں۔ مگر جب وہ لمحے  گزر جاتے  تو اسے  احساس ہوتا کہ یہ اپنی بے  بسی کو  اٹل ثابت کرنے  کی تاویل تھی اور اس کی حقیقت کچھ بھی نہ تھی۔ بس شاید یہ احساس اس وقت اس کے  اندر قبل از وقت پیدا ہو گیا تھا اور اس نے اپنی دماغ  کو سہارا دیتے  ہوئے  ایک سنسان بنچ کا رخ کیا جو شاید اپنی گوشہ نشینی ہی کی وجہ سے  خالی رہ گئی تھی۔

وہاں  بنچ پر بیٹھ کر اس نے  اپنی اعضاء  کو ڈھیلا  چھوڑ دیا تاکہ تھکن  کچھ کم ہو۔ مگر  اس وقت  بھی اس کے  ذہن  میں  طرح طرح کی دھندلی تصویریں   ناچ رہی تھیں۔ اور وہ ان کو نمایاں   دیکھنے  کے  بجائے  دریا کے  کنارے   بیٹھے  ہوئے  انسانی پیکروں  کی نقل و حرکت  میں  گم ہو جانے  کی کوشش کرنے  لگا۔

وہاں  بھی  مغربی  ملبوسات مشرقی پوشاکوں  پر غالب تھے۔ انھیں  کی کثرت تھی۔ اور پھر اس کے  سامنے  رستوران کی لڑکی کا  پیکر رقص  کرنے  لگا۔ وہی تجارتی مسکراہٹ، وہی تصنّع، وہی فریب۔ وہ سوچنے  لگا کیا مغرب میں  تجارت، تصنّع، اور  فریب بھی کوئی لباس ہے ؟ اور جتنا وہ غور کرتا گیا وہ لباس زیورات بنتے  چلے  گئے۔ معاً وہ کوٹ اور پتلون جو وہ زیب تن کئے  تھا اسے  بھی اس کے  تصنّع، فریب اور تجارت کا احساس دلانے لگے۔ دل میں  آیا کہ وہ انھیں  اسی وقت پھاڑ کر پھینک دے  مگر اس نے  اپنی کالر کی گرفتوں  کو ڈھیلا کر دیا اور ہاتھ تھکے  ہوئے  مسافروں  کی طرح جھُول گئے۔ ہم ایک فریب، ایک تصنّع اور تجارت ہی کے  ذریعہ تو اس  کاروانِ بے  منزل کو  بڑھائے  لئے  چلے  جا رہے  ہیں  ورنہ ہم اس طرح  بے  بس نہ ہوتے  کہ ہمارا ایک بازو خواہشات اور جذبات کے  کندھے  پر ہوتا اور دوسرا  بے  نام آرزوؤں  اور تمنّاؤں  کے  کندھے  پر!  پھر وہ ہم کو جہاں  چاہتے  گھسیٹ لے  جاتے  اور جہاں  چاہتے  چھوڑ دیتے۔ اب جو مشکوک اطمینان  ہم کو اپنے  سہاروں  پر ہے  تو کیا یہ تصنّع نہیں، فریب نہیں ؟ کیا یہ ایک ایسی تجارت نہیں  جس کی سہارے  ہم بے  دست و پا  چلنا  چاہتے  ہیں  لیکن سب کچھ قیمتاً قربان کرنے کے۔ ؟ اب بھی اس کے  ہونٹوں  پر شکنیں  تھیں  مگر ان میں  سے  مسکراہٹ جھانک رہی تھی۔ ایک ایسی مسکراہٹ جس میں  طنز و تمسخر کا  امتزاج زیادہ ہو۔

شام تاریکیوں  کے  شگافوں  میں   بیٹھتي چلی جا رہی تھی۔ برقی قمقمے  روشن ہو گئے  تھے  اور کنارے  پر کافی چہل پہل ہونے  کے  بعد سکوت چھاتا چلا جا رہا تھا۔ اس نے  بھی ایک  الجھی ہوئی سانس کے   ساتھ گھر کی طرف چلنا شروع کیا۔ جس کے  لئے   اس کو اس  ارادے  کی ضرورت نہ تھی کہ اسے  گھر جانا ہی۔ وہ فٹ پاتھ پر خود میں  کھویا ہوا چلا جا رہا تھا۔ ممکن ہے  کہ وہ یہ بھی سمجھ رہا ہو کہ اس کے  گرد و پیش کوئی انسان نہیں  ہے، کوئی وجود نہیں  ہے، کوئی عمارت نہیں  ہے۔ علاوہ مہیب سایوں  کے  اور لایعنی شور کے۔ اس نے  جب اپنے  دروازے  پر لٹکتے  ہوئے  پردے  کو ہٹایا تو وہاں  وہی خاموشی، وہی اداسی چھائی ہوئی تھی جس میں  جسم تو زندہ رہتے  ہیں  لیکن روح مر جاتی ہے۔ اس نے  اسی طرح بیزاری سے  اپنے  کمرے  کا رخ کیا اور دروازہ کو دھکّا دے  کر کھولتے  ہوئے  داخل إو گیا۔ کوٹ اتار کر کرسی کے  بازو پر پھینکا۔ خود کو بستر پر بے  قابو سا گرا دیا۔ دیر تک وہ پراگندہ سا پہلو بدلتا رہا اور سوچتا رہا کہ وہ اس پستی سے  ابھر کر وہ اوپر کیسے  آ سکے  گا۔ مگر اس وقت تو جیسے  اس میں  کسی  قسم کی  بھی صلاحیّت نہ تھی وہ عجب طرح کا مٹّی کا ڈھیر سا ہو گیا تھا۔ اور اس کے  چاروں  طرف  بساندے  کے  پھولوں  کی سی بدبو بے   ہنگم شور اور چیخیں  اور چکّی کے  پاٹوں  کی سی گھرگھراہٹ پھیلتی چلی جا رہی تھی۔ وہ بڑی بے  بسی محسوس کرنے  لگا۔ کمرے  کی تاریکی بھیانک ہوتی چلی جا رہی تھی۔ وہ اور بھی زیادہ  ہراساں  ہو گیا تھا۔ اس نے  بے  اختیار چاہا کہ اپنا گلا گھونٹ لے۔ مگر اس پر  خِفّت کا لرزہ سا طاری ہو گیا۔ اور اسی لمحے  کسی کے  قدموں  کی چاپ اس کے  کانوں  میں  ٹپکنے  لگی اور کوئی کمرے  کے  اندر رینگ آیا۔ اس نے  ماچس جلائی اور پوچھا  ’’کون؟‘‘۔ مگر کسی جواب کی بجائے  ماچس کی زرد ڈوبتي ہوئی روشنی میں  اس کی شریکِ حیات کا چہرہ ابھر آیا۔ اس چہرے  پر  تصنّعات کی جھلک نے   اس میں  نفرت سی پیدا کر دی۔ اس نے  ہاتھ جھٹک کر ماچس بجھا دی۔

’’بجلی جلادو‘‘۔ اور خود اپنی پراگندگی میں  ڈوبا ہوا  بے  حس و حرکت  لیٹا رہا۔

بجلی کا بلب ایک ’’کلک‘‘ کے  ساتھ روشن ہو گیا۔ اور اس کی اُداس اُداس روشنی کے  ساتھ کہیں  دور سے   مُترنّم آواز گونج اٹھی۔

 اُس سے  بڑھ کر   گمراہ کون ہو گا جس نے  خدا کی ہدایت کے  بجائے  اپنے  نفس کی  خواہش کی پیروی کی۔ ایسے  ظالم لوگوں کو خدا  ہدایت نہیں  دیتا۔

ایک دم جیسے  بجلی کی روشنی میں  ایک فرحت بخش رمق پیدا ہو گئی اور اس کی روح ایک اطمینان کے  ساتھ مسرّت سی محسوس کرنے  لگی۔ اس نے  اپنی بیوی کی طرف دیکھا جو اس کے  سامنے  کرسی پر بیٹھی ہوئی اس کے  چہرے  کی بدلتی ہوئی  کیفیتوں  کو نہ معلوم کب سے  بڑے  غور سے  تک رہی تھی اور مسکرا رہی تھی اور پھر وہ سارا ماحول اس سے  اجنبی ہوتے  ہوئے  بھی اس کے  بالکل قریب آ گیا تھا۔


٭٭٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں   

   ورڈ فائل                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول