صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


ڈی این اے
 تخلیق الہی کا کرشمہ

انجم اقبال


ڈاؤن لوڈ کریں 

          ورڈ فائل                                                                           ٹیکسٹ فائل

ڈی این اے کیا ہے

ڈی این اے (DNA ) کی معلومات تک پہنچنا سائنس کی تاریخ کا بڑا اہم سنگ میل ہے۔ سائنس جو خدا کی منکر ہو گئی تھی اب خدا کا اقرار کیا چاہتی ہے۔ دنیائے سائنس نے مان لیا ہے کہ چارلس ڈاروَن کے تصورِ ارتقا نے انسانیت کے ١٥٠ سال خراب کیے ہیں۔


اس سے پہلے کہ ڈی این اے کی تفصیل بتائی جائے کہ اس دریافت نے کس طرح خدا کے قریب ہونے کا راستہ ہموار کیا ہے، ہم یہ بتاتے چلیں کہ ١٩ ویں صدی میں تین بڑی طاقتور آوازیں گونجتی رہی ہیں جن میں سے ہر آواز کے لاکھوں پیروکار پیدا ہوئے۔ ان میں ایک آواز کارل مارکس کی تھی جس نے تمام دنیا کے محنت کشوں اور کاری گروں کو یک جہتی کا پیغام دیا۔ اس کے تصورات اتنے جامع قرار پائے کہ تاریخ، معاشیات و مالیات، سیاست اور معاشرے کے مکمل احاطے کے ساتھ علم و دانش کے بے اندازہ شعبوں کو متاثر کر گئے۔ یہ انقلاب برپا کرنے اور اپنی دنیا آپ تبدیل کرنے والے خیالات تھے جو اپنی ابتدائی شکل میں ١٩٤٨ء میں اشتراکی منشور (Communist Manifesto) کی شکل میں سامنے آئے۔ یہ مادہ پرست پس منظر میں صرف دولت کی تقسیم پر سماج کی تعمیر کا وہ خواب تھا جس کی تعبیر روس میں بڑے پیمانے پر آزمائی گئی۔ روئے زمین پر اس تصور کے کروڑوں پیروکار پیدا ہوئے اور اس کی ہم نوائی میں زندگی کی تعبیر پھر سے کی جانے لگی۔ خدا نا شناس علمی عنوانات، روشن خیالی، ترقی پسندی، آزاد خیالی، عورتوں کے حقوق جیسے سیکڑوں خوب صورت الفاظ تراشے گئے جو عام آدمی کو خوش کرنے اور ایک معیاری انصاف پسند دنیا بنانے کا ولولہ انگیز طوفان تھا جو بڑے بڑوں کو بہا لے گیا۔ روس کے خاتمے کے ساتھ یہ اپنے انجام کو پہنچا۔ اس کے تمام ہم نوا اور پیروکار اپنے اپنے بلوں میں واپس جانے کے راستے تلاش کرنے پر مجبور ہو گئے۔


دوسری آواز فرائڈ کی تھی جو ٨٨٢١ء میں شعور اور تحت الشعور کی بحث کے ساتھ اُبھری، اس نے تجربات سے ثابت کیا کہ بھولی ہوئی یادیں اور تجربات تحت الشعور میں محفوظ ہو جاتے ہیں اور ان کو واپس یاد دلایا جا سکتا ہے۔ ان تجربات کو کرنے کے لیے اس نے نفسیاتی تجزیے (psychoanalysis) کا وہ تجرباتی طریقہ پیش کیا کہ رومانی دنیا کے انسانی ذہن کے لیے لامحدود وسعتوں تک ترقی کر سکنے کے امکانات وا کر دیے۔ یورپ، امریکا اور دنیا بھر میں نفسیاتی تجزیے کی تجربہ گاہیں کھل گئیں۔ فرائڈ کی سب سے زیادہ مشہور تشریح اس کا لبیڈو (Libido) نظریہ تھا جس کے لاتعداد ہم نوا اور بے اندازہ مخالفین بھی سارے عالم میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ لبیڈو نظریہ کے تحت انسان اپنی تمام نشوونما میں پیدا ہوتے ہی یعنی ماں کا دودھ مانگنے کے وقت سے موت کی آخری ہچکی تک ایک جنسی تسکین کا متمنی رہتا ہے۔ جنسی لذت کی کمی اور زیادتی کے تجربات کے تحت ہی انسان کی تمام جسمانی، ذہنی، دماغی، عملی اور دانش مندی کی کارفرمائیاں وجود پاتی ہیں۔ اس نظریے کو انسان کے تمام اوامر زندگی پر محیط کرنے کی کوشش عالمی پیمانے پر کی گئی۔ یہ خود پسندی (Narcissism) تھی، یعنی وہ نفسی کیفیت جس میں انسان اپنی ہی ذات کو کامل اور خود اپنے ہی عشقِ ذات میں محو رہنا کافی سمجھتا ہے۔ اپنی جسمانی لذتوں کے پانے میں گم ہو جانے اور اسی کو مرکز حیات اور مقصد کائنات سمجھنے اور سمجھانے والوں کی یہ شدید گونج مختلف ناموں سے ۱۹ ویں صدی میں اٹھی اور پوری ۲۰ ویں صدی میں گونجتی رہی اور بالآخر ۲۱ ویں صدی کے آتے آتے غلط اور بے بنیاد ثابت کر دی گئی۔


تیسری آواز ڈاروِن کی تھی جس نے انسان کو بندر کا رشتے دار بتایا اور فلسفہ ارتقا کے دیوانے گھر گھر نظر آنے لگے۔


٢٠٠٠ء میں یہ ثابت ہوا کہ جب روشنی کی رفتار کو کئی گنا بڑھایا گیا تو اس تجربے کے دوران سائنس دان یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس تجربے میں تاثیر (effect) اس کے سبب (cause) سے پہلے ہوئی۔ ایک اخبار نے لکھا کہ یہ ثابت ہوا کہ کسی سبب سے پہلے اس کی تاثیر کا ہونا ممکن ہے۔ اب تک خیال تھا کہ کسی بھی اثر، انجام، نتیجہ یا حاصل کو پانا اس کے سبب، وجہ یا علّت کے ہونے کے بعد ہی ممکن ہے۔ یہ تجربہ ثابت کرتا ہے کہ کسی واقعے کی انتہا اس کی ابتدا سے پہلے بھی ممکن ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ واقعہ خود اپنے آپ میں ایک تخلیق (creation) ہے۔ یہ کسی دوسرے واقعے کا رد عمل نہیں ہے۔ اب تک جو کہا جاتا رہا ہے کہ ہر عمل کسی عمل کا رد عمل ہے یا یہ کہ There is reaction to every action، یہ غلط ثابت ہوتا ہے۔        ٢٥ جون ۲۰۰۰ء کو یہ بھی ثابت ہوا کہ ایک قدیم چڑیا کا فوسل (fossil) جو لاکھوں سال بعد دریافت ہوا وہ بھی چڑیا ہی تھا یعنی لاکھوں سال پہلے سے اب تک اس چڑیا میں کوئی ارتقا (evolution) نہیں ہوا۔ آج کی چڑیا بھی بالکل وہی چڑیا ہے جو لاکھوں سال پہلے تھی۔ ٢٠٠١ء میں انسانی جینوم (genome) پراجیکٹ مکمل ہوا جس میں زندگی کے حیاتیاتی میک اپ (biological makeup) کا مکمل نقشہ تیار کیا گیا جو اس صدی کا بڑا سائنسی کارنامہ ہے۔ اس پراجیکٹ کے نتیجے میں یہ بات اور واضح ہو گئی کہ خدا کی تخلیق جو انسان کی شکل میں ودیعت کی گئی ہے وہ زندہ اشیا میں سب سے عظیم تخلیق ہے۔ ماہرین ارتقا کوشش کر رہے ہیں کہ انسانی جین (gene) اور جانوروں کے جین میں مشابہت کی افواہ پھیلا کر کچھ مواد اپنے مطلب کا نکالنے میں کامیاب ہو جائیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ دانش وروں اور سائنس دانوں کی بڑی تعداد نظریہ تخلیق کی حامی (creationist) ہوتی جا رہی ہے جن کا یہ اعتراف ہے کہ دنیا کسی عظیم قوت کی قوتِ تخلیق سے وجود میں آئی ہے۔ بتدریج ترقی کے مراحل سے گزرتی ہوئی اپنی موجودہ حالت کو نہیں پہنچی ہے۔ آیندہ جو مختصر تفصیلات بیان ہوں گی ان کی روشنی میں آپ خود اندازہ لگا سکیں گے کہ خدا نا شناس سائنس اب اپنے اختتام کو پہنچنے والی ہے اور ١٢ ویں صدی انسان کو اپنے کھوئے ہوئے خدا سے پھر ملا دے گی۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

          ورڈ فائل                                                                           ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول