صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


کلاسیکی مثنویوں  کی جمالیات

ڈاکٹر شکیل الرّحمٰن

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                          ٹیکسٹ فائل

چندر بدن و مہیار


مثنوی ایک قدیم فن ہے  فارسی  اور  اُردو نظم کی ایک قدیم ترین صنف۔ دکن کے  شعری دبستان بیجا پور، گولکنڈہ  اور  بیدر میں  جانے  کب سے  مثنویاں  لکھی جا رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے  کہ ملاّ وجہی سے  تین سو برس پہلے  بھی مثنویاں  لکھی جاتی رہی ہیں۔ ۱۲۶۵ء میں  حضرت شیخ فرید شکر گنجؒ کی چند ایسی مختصر مثنویاں  دستیاب ہیں  کہ جن میں  صوفیانہ مضامین ہیں۔ قدیم اُردو میں  جہاں  مختصر مثنویاں  ملی ہیں  وہیں  طویل مثنویاں  بھی ملتی ہیں۔ بہمنی دورِ حکومت میں  بعض قدیم مثنویوں  کا پتہ چلتا ہے۔ نظامی کی مثنوی؟یوم راؤ پدم راؤ‘  ایک عمدہ طبع زاد عاشقانہ مثنوی ہے  جو سلطان احمد شاہ بہمنی کے  دور میں  ۱۴۴۰ء میں  لکھی گئی۔

    اُردو زبان میں  طبع زاد مثنویاں  بہت کم ہیں، اُردو کی اکثر مثنویوں  کی بنیاد فارسی قصّے اور مثنویاں  ہیں، جب فنکار اپنی کہانی پیش کرتا ہے  تو کہانی  اور  کرداروں  کے  عمل  اور  ردِّ عمل سے  فنکار کے  احساسات و جذبات وابستہ رہتے  ہیں  اس لیے  کہ کہانی  اور  کردار دونوں  فنکار کے  تخلیقی وژن سے  تعلّق رکھتے  ہیں، فنکار اپنی کہانی کے  اُتار چڑھاؤ پر زیادہ غور کر نے  لگتا ہے، کسی دوسری زبان کی کہانی کو اپنے  انداز سے  پیش کر دینا  اور  بات ہے اور خود اپنی کہانی کو فن کی صورت دینے  کی شعوری  اور  لاشعوری کوشش  اور  بات۔

    ’چندر بدن و مہیار‘  (۱۶۲۸ء) اُردو زبان کی ایک منفرد طبع زاد مثنوی ہے  بلاشبہ اسے  اُردو کی کلاسیکی مثنویوں  میں  ممتاز درجہ حاصل ہے۔ یہ مثنوی مقیمی کی تصنیف ہے  جو استر آباد کا باشندہ تھا، پرورش بیجا پور میں  ہوئی، شاعری کا شوق تھا خوب شعر کہے  رفتہ رفتہ کلام میں  بڑی پختگی پیدا ہوئی  اور  ایک اچھے  شاعر کی حیثیت سے  اُبھرا۔

    ’چندر بدن و مہیار‘  کی کہانی ’لیلیٰ مجنوں ‘ ، ’شیریں  فرہاد‘   اور  ’ہیر رانجھا‘  کی طرح عوامی زندگی میں  موجود تھی، مقیمی نے  اس کہانی کے  خاکے  کو اپنایا، عشق کے  جذبے  کو روحانی پاکیزگی عطا کی، تخلیقی شعور کی آگ میں  تپایا  اور  پھر اسے  کندن بنا دیا۔ ڈرامائی کیفیتوں  کی وجہ سے  اس میں  نئی جان پڑ گئی، ایک ایسا تحرّک پیدا ہو گیا کہ بعض مناظر  اور  تصویریں  حیرت انگیز  اور  دلچسپ بن کر جمالیاتی انبساط عطا کر نے  لگیں۔

    ’چندر بدن و مہیار‘  کو  اگر چہ ’ہیر رانجھا‘   اور  ’سوہنی مہیوال‘  کی طرح مقبولیت حاصل نہ ہو سکی لیکن یہ مثنوی ان کہانیوں  سے  کم بھی نہیں  ہے۔ احساسات و جذبات کی پیشکش  اور  ڈرامائی کیفیتوں  کی وجہ سے  ایک انتہائی عمدہ تخلیق بن گئی ہے۔ ’ہیر رانجھا‘   اور  ’سوہنی مہیوال‘ سے  کہیں آگے  بڑھ کر اس مثنوی میں  المیہ کا حسن پیدا ہوا ہے۔ تینوں  عشقیہ کہانیاں  ہیں اور تینوں  کا انجام المناک ہے  لیکن مقیمی نے  خاکے  کو مرتب کر نے  میں  فنکاری کا جو معیار قائم کیا ہے  اس سے  المیہ کا جمال قاری کے  احساس و جذبے  کو زیادہ متاثر کرتا ہے۔ کہانی کا سحر انجام سے  کچھ پہلے  گرفت میں  لے  لیتا ہے اور پھر انجام کو حد درجہ سحر انگیز بنا دیتا ہے۔

    کہانی، کردار ، کرداروں  کے  اندازِ گفتگو  اور  طرزِ ادا کے  پیشِ نظر ’چندر بدن و مہیار‘  کو کلاسیکی درجہ حاصل ہے۔ ابن نشاطی نے  ’پھولبن‘   اور  سراج  اور  نگ آبادی نے  اپنی غزل میں  ’چندر بدن و مہیار‘  کو تلمیح کے  طور پر استعمال کیا ہے۔ اس سے  قبل گولکنڈہ میں  غواصی کی مثنوی ’سیف الملوک  اور  بدیع الجمال‘  آ چکی تھی۔ مقیمی اس سے  متاثر بھی تھا، کہتا ہے:

تتبع غواصی کا باندیاں  ہوں  میں

سخن مختصر یہ کے  ساندیا ہوں  میں

           ملانا، جوڑنا

عنایت جو اس کی ہوئی مج پر

                                           (مجھ)  

یو تب قلم قصّہ کیا سر بسر

    ’سیف الملوک و بدیع الجمال‘  سے  بچ کر نکل جانا آسان نہ تھا لیکن اس کے  باوجود مقیمی نے  اپنی انفرادیت نمایاں  کی ہے، غواصی کے  اسلوب و آہنگ سے  کچھ متاثر ہونے  کے  باوجود اپنی ایک راہ نکالی ہے۔ مثنوی کے  مطالعے  سے  پتہ چلتا ہے  کہ مقیمی کے  دل میں  غواصی کا بڑا احترام تھا، اس سے  انکار نہیں  کہ ’سیف الملوک و بدیع الجمال‘  پیشِ نظر رہی لیکن مقیمی نے  غواصی کی پیروی نہیں  کی ہے۔ اس کی اپنی انفرادیت اسے  اُردو ادب میں  ایک مقام بخشتی ہے۔

    مثنوی کی ابتدا حمد، مناجات، نعت، منقبت چہار یار سے  ہوتی ہے۔ حمد میں  ’توں  قادر ہے  قدرت کا صاحب دھنی‘  کہتے  ہوئے  مالک کی تخلیقات کے  جلوؤں  کو مختلف انداز سے  دکھایا ہے۔ اللہ نے  آدم میں  روح پھونکی، اللہ ہی نے  نوح کی کشتی کو طوفان سے  بچایا، اسی کا کرشمہ تھا کہ نمرود کی آگ میں  خلیلؑ ڈالے  گئے اور آگ گلزار میں  تبدیل ہو گئی۔ اللہ ہی کی وجہ سے  محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا سایہ امت پر قائم ہوا۔ سلیمانؑ کو بادشاہی ملی  اور  محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر نبوت ختم ہوئی۔ اللہ غیر مجسم ہے  نرنکار ہے، رحمن وہی ہے، وہی اندھیرے  کو روشنی میں  تبدیل کرتا ہے:

رحیما خلق پر تو رحمان ہے

نرنکار بے  چوں  تو سبحان ہے

(غیر مجسّم)

اندھیارا کرے اور اُجالا تُہیں

(توہی)

او چاوے  سلاوے  تعالیٰ تہیں

(اٹھانا زندہ کرنا)

بہت دلکش حمد ہے، یہاں  عام مثنویوں  کی حمد کی طرح رسم نبھانے  کی بات نہیں  ہے، شاعر کی نظر کائنات کے  حسن و جمال پر پھسلتی رہی ہے۔ شاعر ایک معصوم بچے  کی طرح اشیا و عناصر کو دیکھ رہا ہے، اندازِ بیان میں  ایک بھولپن ہے۔ مصرعے  پڑھتے  ہوئے  سرور کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ اللہ پاک کی تعریف کرتے  ہوئے  ایک معصوم ذہن کا مشاہدہ بھی ہے اور ایک تجربہ کار شخص کا تجربہ بھی، دونوں  کی ہم آہنگی متاثر کرتی ہے:


چندا تجھ حکم سوں (سے ) نکلتا ا ہے  (ہے )

کہ بڑتا (بڑھتا)ہے  دائم و گھٹتا ا ہے

سورج نِت (ہمیشہ)گرم دھوپ بارے  سدا

و و مشرق تھے (سے )  مغرب سدھارے  سدا

اور :

توں  ایسا دھنی سب سیتے  (سے )بے  نظیر

تہیں  ہے  علیٰ کلِ شئیٍ قدیر

زمیں  پر کتے(کتنے )  دھات گلشن کیا

سوالوان نعمت سوں   (سے ) روشن کیا


مشاہدے اور تجربے  کی ہم آہنگی کی یہ عمدہ مثال ہے۔

    اسی طرح مناجات، نعت  اور  منقبت میں  اچھے  اشعار ملتے  ہیں، مقیمی خود کو زبان کا سچا جوہری بتاتے  ہوئے  (زبان کا اتا ہوں  سچا جوہری۔ کروں  نِت سخن سو گہر گستری) ’چندر بدن و مہیار کا قصّہ شروع کرتا ہے:

سو چندر بدن ہور مہ یار کا

کہوں  ایک قصّہ گہر بار کا

’چندر بدن‘  ایک راجا کی بیٹی ہے، انتہائی خوبصورت:

اتھی خوب صورت میں  جیوں  شہ پری

و لیکن پری سوں  اتھی برتری

لطافت میں  موزوں  و شیریں  سخن

ا تھا ناؤں  اس کا سو ’چندر بدن‘

    ’مہیار‘  غریب نوجوان ہے، صاحب جمال ہے۔ فصاحت بلاغت پر فاضل ہے، ایک مندر کے  قریب کھڑا ہے  کہ جہاں  شیو راتری منائی جا رہی ہے۔ اچانک دعا کرتا ہے:

الٰہی مجھے  خوب صورت دکھا

یرم کا پیالہ سدا مجہ چکھا

پھر یکا یک اللہ مہربان ہو جاتا ہے:

یکایک رحمان ہوا مہرباں

دیا اس کوں  معشوق کاویں  نشاں

    اس کی نظر چندر بدن پر پڑتی ہے  جو اپنی سہیلیوں  کے  ساتھ شیو راتری منانے  مندر میں  اکٹھی ہوئی ہے، چندر بدن بھی اسے  دیکھتی ہے  بس دونوں  ایک دوسرے  پر عاشق ہو جاتے  ہیں۔ راجکماری کے  ذہن میں  ماہیار بس جاتا ہے۔ مندر میں  آرتی اُتارتے  وقت محبوب کا چہرہ ہی سامنے  آتا ہے۔ ماہیار اپنے  عشق کا اظہار صاف صاف کر دیتا ہے:

نزک جا کے  بولیا کہ سن اے  پری

(نزدیک)

مجے  تجہ لطافت دیوانہ کری

(مجھے ) (تیری)

دیوانہ ہوں  تیرا، دیوانے  کے  تئیں

اپس تے  نہ کر دور جانے  کے  تئیں

(اپنے  پاس سے )

    ’چندر بدن‘  اسے  جھڑک دیتی ہے۔ وہ راجا کی بیٹی ہے  ہندو ہے  ماہیار غریب ہے  مسلمان ہے، بھلا ملاپ کیسے  ممکن ہے  لیکن دل میں   محبت کی چ نگاری سلگ چکی ہے۔ واپس جا کر برہ کی  بھٹی میں  جلنے  لگتی ہے، مقیمی اس کی کیفیت اس طرح پیش کرتے  ہیں:

برہ کی  ّبھٹی کی لگا راک تن

سٹیا پھاڑ کپڑے  ہو چالاک تن

سگل ہوش تن کی دیوانی ہوئی

(تمام)

دیکھو خوار اس کی جوانی ہوئی

جوانی کی خواری بہت ہے   بری

جوانی کی زینت ہے  زینت گری

دوسری طرف ماہیار کا حال بھی کچھ اسی طرح کا ہے:

کہ عاشق یکایک برہ کا اسیر

لگا خاک موں  کوں  ہوا جوں  فقیر

    راجا اپنی بیٹی کے  ساتھ ماہیار کے  رشتے  کو قبول نہیں  کرتا، ماہیار جدائی کی تاب نہ لا کر اس دنیا سے  گزر جاتا ہے۔ اس کا جنازہ جب راجا کے  محل کے  سامنے  پہنچتا ہے  تو رُک جاتا ہے۔ آگے  بڑھتا ہی نہیں  ہے۔ چندر بدن کو مہیار کے  انتقال کی خبر ملتی ہے  تو غسل کر کے  اپنے  کمرے  میں  چلی جاتی ہے  جہاں  اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ مہیار کا جنازہ آگے  بڑھنے  لگتا ہے۔ جب تابوت سے  قبر میں  اتار نے  کا وقت آتا ہے  تو سب دیکھتے  ہیں  کہ چندر بدن کی لاش بھی مہیار سے  لپٹی ہوئی ہے! دونوں  لاشیں  جیسے  ایک دوسرے  سے  چمٹ گئی ہیں  مجبوراً دونوں  ایک ہی قبر میں  اُتارے  جاتے  ہیں۔ مہیار کے  جنازے  کا ڈرامائی منظر اس طرح پیش ہوا ہے:

اٹھانے  چلے  ویں  جنازے  کے  تئیں

قدم کس اوٹھے  نئیں  اندازے  کے  تئیں

کریں  قصد جتنا گورستان پر

چلیا نیں  جنازہ سو میدان پر

یزداں  حکم کیتا وہ عالی جناب

کہ جاتا جدھر کوں  لجاؤ شتاب

کہ جس راہ پرتے  و و چندر بدن

چلی تھی قدم رکھ اپس گھر کدن(طرف)

چلاویں  اودھر کو توجانے  لگیا

نئیں  تو اٹک کر نہ جانے  لگیا

پچھیں  شہ کہیا یو جنازہ کہاں


(اس کے  بعد)


کہ جاتا جدھر کوں  لجاؤ ناواں

چلیا جیوں  جنازہ ادھر لے  چلے

رہیا پھر اٹک اس محل کے  تلے

ہوا شور یکدم بہ یکبارگی

کہ اٹکیا جنازہ سو اوس ٹھار بھی

سنی یو خبر جوں  کہ چندر بدن

کہ اٹکیا جنازہ اپس گھر کدھن

سو چھپ کر چھجے  پر ہوئی سوار و و

تماشے  بدل آکھڑی نار و و

خبر سن عجائب یو رنگر اپتی

نکل بھار آیا تجسّس ستی

ہوئی دیکھ حیراں  خلق بھوت یوں

کہ قدرت سوں  اٹکیا جنازہ سو کیوں

دیکھیا شاہ، تدبیر چلتا نئیں

جنازہ یہاں  تے  نکلتا نئیں

بزاں  بول بھیجا سوراجے  کے  پاس

سلام ہور حقیقت بدست خواص

کہ اٹکیا جنازہ چھجے  تل حضور

اوسے  دفن کرنا ہمن پر ضرور

ولے  یو یہاں  تے  نکلتا نئیں

قضا یو کسی پر سمجھتا نئیں

گماں  ہے  ہمن پر کہ چندر بدن

کرے  کچ ہنر تو یو پاوے  دفن

اس کے  بعد جو ہوا اس کا ذکر کر چکا ہوں۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول