صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


کلیپ ہیم ساؤتھ

فہمیدہ ریاض

لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

اقتباس

"زمانہ بھی انسان کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے۔"

    منصورہ اپنے خیال میں غرق، زمیں دوز ریل میں بیٹھی چلی جا رہی تھی۔ وہ ابراہیم بھائی صاحب کا سوچ رہی تھی جو پاکستان جانے والے تھے... فیصل آباد، جہاں اس کی بوڑھی ماں اور باپ رہتے تھے۔ دو دن پہلے ابراہیم بھائی صاحب نے اس سے کہا تھا:

    "ناں بھئی ناں، یہ پیسے میں تیرے ماں باپ کو نہیں دے سکتا۔ یوں بھی ہمارے پیارے وطن میں بیٹی کی کمائی کوئی نہیں کھاتا۔ ارے بیٹی کے گھر تو پانی بھی نہیں پیتے بہت سے لوگ۔"

    منصورہ دل مسوس کر رہ گئی تھی۔ اشفاق سے چھپا چھپا کر اس نے سلائی سے کی گئی خود اپنی کمائی سے جو سو پاؤنڈ جمع کیے تھے وہ اس کے ہاتھ میں لرزتے رہ گئے تھے۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کے قطرے خاموشی سے لڑھکتے ہوے گردن پر گرتے رہے تھے... آنسو جو خود اس کے گریبان میں جذب ہو گئے تھے۔ اس کے منھ سے سسکی کی طرح نکلا تھا:

    "کیا میں ان کی بیٹی نہیں؟ ... ان کا مجھ پر حق نہیں؟"

    ابراہیم بھائی صاحب نے سر ہلا کر کہا تھا:

    "لو یہ بھی کوئی بات ہوئی! نسل تو مرد سے چلتی ہے۔ اب الله تعالیٰ کی یہی مرضی تھی کہ تمھارے والدین کے گھر اولادِ نرینہ نہ ہو تو اس کی رضا۔ الله کے راز وہ ہی جانتا ہے۔ یا حق!" انھوں نے تسبیح پھیرتے ہوے نعرہ سا لگایا تھا۔

    ایک اسٹیشن پر گاڑی رکی تو منصورہ نے گھبرا کر باہر نظر ڈالی۔ لیسسٹر اسکوائر آ گیا تھا۔ یہاں سے اسے آکسفورڈ سرکس کے لیے ٹیوب بدلنی تھی۔ وہ جلدی سے اٹھی اور اپنے بیٹے گڈّو کو ہاتھ پکڑ کر کھینچتی ہوئی، دوسرے ہاتھ سے اس کی پُش چیئر سنبھالے، لوگوں کی بھیڑ چیرنے کی کوشش کرنے لگی۔ ایک انگریز عورت نے گڈّو کو ٹرین سے نیچے اتار دیا۔ منصورہ جلدی سے خود بھی اتری اور دلی تشکر سے کہا:

    "تھینک یو!"

    عورت مسکرائی۔ ٹرین کا خودکار دروازہ بند ہو گیا۔ دھندلے شیشے کے پار اس عورت کا مسکراتا چہرہ اور سنہری بال غائب ہو گئے۔

    منصورہ نے سانس درست کی اور گڈو کو پش چیئر میں بٹھا کر اسٹریپ باندھا۔ پھر وہ بجلی کی سیڑھیوں کی طرف چل دی۔ پلیٹ فارم بدل کر وہ سنٹرل لائن کی ٹرین کا انتظار کرنے لگی۔

    کرسمس کا زمانہ تھا اور آکسفورڈ اسٹریٹ پر سیل لگی ہوئی تھی۔ سیل تو خیر برکسٹن میں بھی لگی تھی جو کلیپ ہیم ساؤتھ سے زیادہ دور نہیں تھا، مگر اشفاق کا اصرار تھا کہ اس کے رشتہ داروں کے لیے شاپنگ آکسفورڈ اسٹریٹ سے ہی کی جائے جہاں زیادہ ویرائٹی ہے۔ لسٹ اس کے پاس تھی۔ اشفاق کے سب بھائیوں کے لیے پتلونیں اور قمیصیں، اس کی ماں کے لیے سویٹر، باپ کے لیے کارڈیگن اور بہنوں کے لیے ہینڈ بیگ خریدنے تھے۔ یہ سب سامان ابراہیم بھائی صاحب اپنے ساتھ فیصل آباد لے جانے والے تھے۔

اقتباس

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول