صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
چھٹی
رؤف خیر
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
نظمیں
چھٹیاں
یہ چھٹیوں کا دور بھی کیسا عجیب تھا
کیسے گزر گیا،یہ پتہ ہی نہیں چلا
راتیں بڑی حسین تھیں ٹی وی کی نذر تھیں
اور دن تمام کھیل کے میدان میں کٹا
اپنی خوشی سے چین سے سوتے تھے رات کو
یہ اور بات وقت پہ کھاتے نہیں تھے ہم
مرضی سے جی رہے تھے بلا روک ٹوک ہی
سچ ہے کہ روز روز نہاتے نہیں تھے ہم
یہ بھی ہوا کہ ڈانٹ پڑی والدین کی
بھائی خفا ہوا تو بہن روٹھ بھی گئی
دشمن قریب آ گئے،کچھ دوست کھل گئے
یوں دوستوں کی دوستی کچھ چھوٹ بھی گئی
اب مدرسے نے یاد دلایا کہ رات دن
ہوتے نہیں ہیں رائگاں کرنے کے واسطے
ہر ہر قدم پہ خیرؔ ہزار امتحان ہیں
اچھا ہوا کہ گرنے سے پہلے سنبھل گئے
***
دل میں امنگ رکھ
بننا اگر بڑا ہے بڑوں کی طرح سے جی
نرمی برتنا اپنے سے چھوٹوں کے ساتھ بھی
اچھے پنپنے جینے کے سب رنگ ڈھنگ رکھ
دل میں امنگ رکھ
اپنی زمیں سے اٹھ کے سمندر کو پار کر
بستی ہے کیسی دیکھ پہاڑوں کے بھی اُدھر
دنیا کو اپنی قوتِ بازو پہ دنگ رکھ
دل میں امنگ رکھ
جی کر دکھا دے لاکھ مخالف ہوا سہی
ہمت نہ ہارنے سے ہی پہچان ہے تری
مضبوط ڈور اور سلامت پتنگ رکھ
دل میں امنگ رکھ
ڈرتے نہیں ہیں صاحبِ کردار موت سے
کر نیک کام ہر کس و ناکس کے واسطے
رکھ دل کشادہ،ذہن بھی اپنا نہ تنگ رکھ
دل میں امنگ رکھ
***
٭٭٭٭٭٭٭٭