صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
خواب چہرہ
ثمینہ راجا ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
مگر میری آنکھیں
میں اُس رات بھی
زندگی کے اسی گمشدہ راستے پر چلی جا رہی تھی
مرا ہجر مجھ کو لیے جا رہا تھا
مجھے اس کی آنکھیں بلاتی تھیں اکثر
خوشی کے سبھی پھول ۔۔۔ رستے میں گرتے گئے
پر مرے آنسوؤں کا نمک ۔۔۔ میرے ہونٹوں پہ باقی تھا
میری ہتھیلی پہ اس لمس کی یاد تھی
اور مرا ہجر مجھ کو لیے جا رہا تھا
وہی راستہ تھا کہ جس پر اندھیرا ہمیشہ سے بھاری تھا
لیکن ۔۔۔ کبھی کچھ بتا کر تو آتا نہیں حادثہ
پھر کسی نے مری خاک اٹھائی
کسی نے مرے پھول اٹھائے
کسی نے ہتھیلی پہ اس لمس کی یاد دیکھی
کسی نے وہاں جھاڑیوں میں پڑی
میری آنکھیں نہ دیکھیں
اب اک اور ہی راستے پر چلی جا رہی ہوں
مرے آنسوؤں کا نمک ۔۔۔ میرے ہونٹوں پہ باقی ہے
میری ہتھیلی پہ ۔۔۔ اس لمس کی یاد ہے
اور مرا ہجر مجھ کو لیے جا رہا ہے
مگر میری آنکھیں
وہیں جھاڑیوں میں پڑی رہ گئی ہیں
**
غزل
رو لیجئے کہ پھر کوئی غم خوار ہو نہ ہو
ان آنسوؤں کا اور خریدار ہو نہ ہو
کچھ روز میں یہ زخم چراغوں سے جل بجھیں
کچھ روز میں یہ گرمیِ بازار ہو نہ ہو
عجلت بہت ہے آپ کو جانے کی ، جایئے
لوٹیں تو پھر یہ عشق کا آزار ہو نہ ہو
سو جائے تھک کے پچھلے پہر چشمِ انتظار
اور کیا خبر کہ بعد میں بیدار ہو نہ ہو
دل کو بہت غرورِ کشیدہ سری بھی ہے
پھر سامنے یہ سنگِ درِ یار ہو نہ ہو
اچھا ہوا کہ آج بچا لی متاعِ خواب
پھر جانے ایسی جراتِ انکار ہو نہ ہو
ق
راہوں میں اس کی پھول ہمیشہ کھلے رہیں
قسمت میں اپنی گوشۂ گلزار ہو نہ ہو
وہ قصر اور اس کے کلس جاوداں رہیں
ہم کو نصیب سایۂ دیوار ہو نہ ہو
جب ہر روش پہ حسنِ گل و یاسمن ملے
پھر گلستاں میں نرگسِ بیمار ہو نہ ہو
**
٭٭٭٭٭٭٭٭