صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


 چیخوں میں دبی آواز 

خاور چودھری

افسانے

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

بوڑھا د رخت

    ان گنت سالوں سے اپنی بانہیں پسارے ، سرنیہواڑے وہ زمین میں گڑا ہوا تھا ، زمانوں کی گریز پا گھڑیوں اور لمحوں نے اس کے وجود پر کھردراہٹوں کی داستان رقم کر دی تھی ، ہر نئی ساعت میں اس کے وجود پر ایک لکیر کا اضافہ ہو جاتا اور یہ لکیر کچھ توقف کے بعد گہری شکن میں بدل جاتی۔ پھر یہ شکنیں اس کے وجود کا حصہ بن جاتیں ، اس کی شخصیت کی پہچان ہونے لگتیں۔ دیکھنے والوں نے خیال کیا کہ شایداس کی جلد ازل سے ہی ایسی ہے ، لکیروں کا لباس اس نے پہلے دن سے ہی پہنا ہوا ہے۔ حالاں کہ ایسانہیں ہے ، ایسانہیں تھا۔ اس کا وجود کبھی بہت نازک ، بہت دل کش، بہت خوب صورت تھا اور آج۔ ۔ ۔ آج صدیوں کی تھکاوٹ پہنے وہ زمین میں گویا گڑتا جا رہا تھا، اس کی بانہیں سکڑتی جا رہی تھیں ، اس کی خوشبو گھٹتی جا رہی تھی، اس کی ٹھنڈک مٹتی جا رہی تھی، موسموں کے تغیرات اور لوگوں کی بے اعتنائیوں نے اس سے اس کا اعتبار، اس کا حسن، اس کا دبدبہ، اس کا قد اور خوش بو تک چھین لیے تھے۔ ۔ ۔ اور اب وہ گئی رتوں کی راکھ میں انگلیاں پھیرتے پھیرتے کچھ تھک سا گیا تھا۔ ۔ ۔ بل کہ اکتاہٹ کے نشانات اس کے چہرے پر ثبت ہو گئے تھے۔ وہ کسی اور زمین میں نمو پانے کی خواہش رکھتا تھا۔ بے رُخی اور ستم شعاری پر مائل لوگوں کے پاس اس کے دکھ کو سمجھنے کے لیے کوئی وقت نہیں تھا۔ ہر کوئی اپنی انا کا اسیرہوکر اپنی زندگی میں مگن تھا۔ ۔ ۔ وہ بھی جن کی موم سی نازک جلد کو اس نے اپنے میٹھے فرحت بخش سایوں میں پروان چڑھایا تھا اور۔ ۔ ۔ وہ بھی جو عمر کا ایک طویل حصہ اس کی چھاؤں میں گزار کر زندگی کی بو قلمونیوں سے آشنا ہوئے تھے۔ بیزاری اور بے دلی کے اس عالم میں تو اس پر اس کے سائے بھی گھٹ رہے تھے ، یوں وہ اپنی ذات کا اعتبار بھی ختم کر چکا تھا۔ کتنے ہی لوگ اس کے ٹھنڈے سایے میں بیٹھ کر خوشیاں سمیٹ گئے اور کتنوں نے جھلساتی دھوپ سے گھبرا کر اس کی میٹھی، ٹھنڈی چھاؤں میں سکھ کا سانس لیا۔ ۔ ۔ اس کا اندازہ ممکن ہی نہیں۔ اس نے کبھی بھی کسی آنے والے کو اپنے سے دُور نہیں رکھا، جو بھی آیا اسے کھلے دل سے اپنی بانہوں میں سمیٹ کر سینے سے چمٹا لیا ، مگر وقت نے دیکھا ، انھی لوگوں نے اس پر پہلا وار کیا جن کو زمانہ کے سردوگرم سے اس نے محفوظ کیا۔ اتنا محفوظ کہ موسموں کی شدت ان پر اثر انداز ہونے سے قاصر ہو گئی۔ طوفانِ باد و باراں کی سختی بجائے خود ان کے لیے لطف کا باعث ہو گئی۔ ۔ ۔

    او خدایا! ۔ ۔ ۔ آج تیشہ انھی ہاتھوں میں ہے جنھیں پکڑ کر اس نے چلنا سکھایا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ، اب اس کی فریادسننے والا کوئی نہیں ہے ، جلد یا بہ دیرکسی ستم ایجاد کے ہاتھوں اس کی زندگی کا چراغ گل ہو جائے گا۔ ۔ ۔ یا پھر نئی ہوائیں اس کے وجود خستہ کو خس و خاشاک کی مانند اُڑا لے جائیں گی اور یہ نشان چھوڑ کر بھی بے نشان کہلائے گا، مگر پھر بھی۔ ۔ ۔ پھر بھی وہ چاہتا تھا کہ ایک بار ہی سہی، ایک لمحہ کے لیے ہی سہی وہ چلے آئیں جن کی ہریالی میں اس کا خون بہتا تھا۔

    وہ جنھیں کسی اور ہوا نے آ لیا تھا بوڑھے درخت کی زبان کہاں سمجھنے والے تھے ، انھیں تو یہ بھی یاد نہیں رہا تھا کہ ان کی اصل یہی تو ہے جو پکار رہا ہے اور وہ تو  یہ بھی بھول گئے تھے کہ، ان کے تن اور وجود پر بھی ایک دن کھردرے ملبوس نے اُترنا ہے۔ ان کے مضبوط بازوؤں نے سکڑ کر کمزور ہونا ہے ، تنی ہوئی گردن نے ڈھلک جانا ہے اور کھلے سینہ نے اپنے آپ میں سمٹ جانا ہے۔ اور شاید وہ یہ بھی فراموش کر بیٹھے تھے کہ ان کے چھوڑے ہوئے نشانات وجود میں ہو کر بھی معدوم ہو جائیں گے ، بالکل اسی طرح جیسے ان کی موجودگی میں بوڑھا درخت بے نشان تھا۔

    دُور شیشم کے گھنے درختوں میں فاختاؤں کی صدائیں بیدار ہوئیں اور ہوا کے دوش پرسفر کر تے ہوئے آگے نکل گئیں ، کبھی کبھی اس گونج میں لٹورے کی آواز بھی مدغم ہونے لگتی۔ ان دہری آوازوں کی آمیزش نے احمد علی کو ماضی میں دھکیل دیا تھا۔ ایک ایک منظر اس کے دماغ پر رقص کرتا اور پھر خود میں محو ہو کر آنسوؤں کی صورت اس کی پتلیوں تک نکل جاتا۔ اس لمحے وہ بائیں ہونٹ کے کونے کو اپنے بوڑھے دانتوں میں داب لیتا اور ایک کوشش سے اشکوں کو پینے کی دھن میں نکل جاتا۔ ۔ ۔ مگر پھر بھی چہرے پر ثبت دو غاروں کے کونے بھیگ جاتے اور وہ اپنی میلی آستین سے غاروں کے دھانوں کو رگڑ کر اُلجھ بیٹھتا۔ مسلسل رگڑنے کے باعث غاروں کے گردا گرد سرخیوں کے پہاڑ اُٹھتے جا رہے تھے۔ اس نے سوچا کہ اکہترسال کے طویل عرصہ میں ایک بار بھی تو اس نے کانٹوں کی فصل نہیں بوئی تھی، پھراس کے تمام کھیتوں میں ہمیشہ کانٹے کیوں اُگتے چلے آئے تھے۔ ۔ ۔ کبھی اس نے میلا منظر نہیں دیکھا تھاپھراس کی آنکھیں پھوڑے کیوں بن گئیں تھی، کبھی اس نے غیرلمس کو محسوس نہیں کیا پھراس کی بانہیں شل کیوں ہو گئیں تھی۔ وہ سوچتا گیا اور روتا گیا۔ ۔ ۔ مگر کہیں اسے یہ سراغ نہ مل سکا کہ وہ کن بے ضابطگیوں کا صلہ پا رہا ہے ، کس تخم کی فصل کاٹ رہا ہے ؟ اسے یاد آیا کہ شاہ جہاں پور سے چلنے والا قافلہ آٹھ افراد پر مشتمل تھا، جو منٹگمری تک پہنچتے پہنچتے سکڑ گیا تھا۔ اب ایک وہ اور اس کی بیوہ پھوپھو تھیں۔ ۔ ۔ جنھوں نے زندگی کو نئے سرے سے آغازکیا۔

    بارہ کا سن ہوتا ہی کیا ہے ، اس عمر میں تو آدمی کو اپنی شناخت تک نہیں ہوتی زمانوں کی خبرداری کیوں کر ممکن ہے۔ اسی سن میں احمد علی نے ایک تھڑا ہوٹل پر کام شروع کیا تھا۔ زندہ رہنے کے لیے جو ضروری تھا وہ اسے وہاں سے مل جاتا۔ اس کی شرافت کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا تھا کہ چارسال بعد ہوٹل کے مالک نے اسے اپنی فرزندی میں لے لیا۔ اور پھر زندگی کی راہ پراس کا سفر رواں دواں ہو گیا۔ ۔ ۔ جوں جوں وقت کینچلی بدلتا گیا احمد علی کے چہرے پر شکنیں بڑھتی گئیں۔ یہ شکنیں اس کے اپنے لیے نہیں تھیں بل کہ ان تینوں کے لیے تھیں جو اس کی تقسیم تھے۔ تینوں کو اس نے بڑی چاہ سے شہر کے مہنگے ترین پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں پڑھایا اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے گوروں کے دیس بھیجا۔ دو وہاں ٹھہر گئے۔ ۔ ۔ اور ایک پلٹ آیا۔ اس لیے نہیں کہ اسے احمد علی کی فکر تھی بل کہ اس لیے کہ وہ جس سے وابستہ ہو گیا تھا وہ وہاں رُکنا نہیں چاہتی تھی۔

    اسجدعلی سرکاری اسپتال میں ڈاکٹر مقرر ہو گیا تھا۔ انگریزی ڈگری کے باعث اسے جلد مقبولیت حاصل ہو گئی تھی۔ جب اس کا تبادلہ نسبتاًپسماندہ قصبہ میں ہوا تو  اس کی چاندی ہو گئی۔ دھن اس پریوں برسنے لگاجیسے ساون کا بادل۔ چند ہی سالوں میں اس نے شہر میں سب سے بڑا بنگلہ اور تمام سہولیات سے آراستہ پہلا اسپتال تعمیر کیا۔ سرکاری اسپتال میں تعیناتی کے دوران اس نے خوب اثرورسوخ قائم کر لیا تھا۔ جائز و نا جائز مقدمات میں لوگوں کو اُلجھا کر علاقہ کے سر کر دہ لوگوں کے ساتھ تعلقات بنائے ، ان سے مال بٹورا۔ ۔ ۔ اور پھر خود کو ان جیسابنانے کے لیے ان کے سانچے میں ڈھال لیا۔ اب اس کے پاس کالے شیشوں والی انٹر کولر اور درجن بھر اعلیٰ نسل کے کتے اور مسلح محافظ ہر وقت موجود رہنے لگے تھے۔ اکلاپے کا مارا احمد علی جو کبھی اس جانب نکل آتا تو  اسجدعلی کا توہین آمیز رویہ اس کے لیے ناقابل برداشت ہو جاتا ، ناچار وہ اپنے گھر لوٹ جاتا۔ ۔ ۔ جو اس نے حلال کا ایک ایک روپیا جمع کر کے بنایا تھا۔ ۔ ۔ وہ گھر جو اسے شاہ جہاں پور کا بدل محسوس ہوتا تھا۔ ۔ ۔ وہ گھر جو اس کے رفیقِ سفرکی یادوں سے مہکتا اور کھلتا تھا۔ ۔ ۔ وہ گھر جہاں اسجدعلی پیدا ہوا اور پھر پہلا قدم اُٹھایا۔ ۔ ۔ حتیٰ کہ جوان بھی اسی گھر میں ہوا۔

    پھر ایک رات تیز آندھیاں چلیں۔ ۔ ۔ بوڑھا درخت اپنی جڑوں سے اکھڑ چکا تھا۔ صبح دم لوگوں نے دیکھا تو   نام ورسرجن ڈاکٹر کا باپ اپنی چارپائی کے نیچے تڑپ تڑپ کر دم تو ڑ چکا تھا۔ ۔ ۔ اور جب اس کے بیٹے کو اطلاع دی گئی تو وہ سیکڑوں میل دُور اپنے جاگیر دار دوستوں کے پاس بیٹھ کر کتوں کی عادات پر گفتگو کر رہا تھا۔ ۔ ۔ مگر کتے کی وفاداری کا وصف اس کی آنکھوں سے اوجھل تھا۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول