صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
چشمِ نور
حماد نیازی
ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
پانیوں کی تہ میں جو گو ہر رہا ہے دیکھیئے
میری آنکھوں کے کبھی اندر رہا ہے دیکھیئے
ساکت و جامد کھڑے تالاب میں جسموں کا بوجھ
خوشبوؤں کا در مقفل کر رہا ہے دیکھیئے
چند مٹیاریں سروں پر گٹھریاں لا دے ہوئے
تھک گئیں ہیں اور سورج ڈر رہا ہے دیکھیئے
سطحِ آبِ چشم پر منظر پھسلتے جا رہے
طائرِ حیراں اڑانیں بھر رہا ہے دیکھیئے
نیلمیں آکاش کی وادی سے نوری سال دور
کوئی قرآں کی تلاوت کر رہا ہے دیکھیئے
رات کی رانی ابھی تک ایک حیرانی میں ہے
اور شب کا اژدھا پھر مر رہا ہے دیکھیئے
میری آنکھیں اپنے اندر قید کر لینے کے بعد
آج منظر کس قدر ششدر رہا ہے دیکھیئے
کچھ کتابیں،مور کے پر،اک دعا اور خشک پھول
بس یہی سامان میرے گھر رہا ہے دیکھیئے
٭٭٭
اس صحیفہ رو کی پیشانی کو جب چوما گیا
آنکھ میں چشمہ اگا اور دشت تک بہتا گیا
سرسراتی گھاس سے میرا گزر ہوتے ہوئے
آئینے جیسا وہ پانی پاؤں سے روندا گیا
اجنبی سے کچھ پرندے اس پہاڑی سے اڑے
آسماں پر پھر صدا کا سائباں بنتا گیا
اپنے اندر غسل کرتے پتھروں کو دیکھ کر
آج پانی تھرتھرایا اور پھر شرما گیا
دیر تک منظر کو دیکھا اور آنکھیں بند کیں
یک بہ یک منظر مری آنکھوں کے اندر آ گیا
سخت نوکیلی چٹانوں پر ہری بیلیں اگیں
اور وادی مین صدا گونجی ،سنو! وہ آ گیا
٭٭٭