صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


چاندنی بیگم: ایک مطالعہ

پروفیسر زاہدہ زیدی

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                          ٹیکسٹ فائل

اقتباس


ریڈ روز ہاؤس کے عملے میں ملازموں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے جو قنبر علی سے بہت محبت کرتے ہیں اور خاندان کے وفادار ہیں اور خاندان کے لوگ بھی ان کا ہر طرح خیال رکھتے ہیں۔ یہاں مصنفہ نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ یہ لوگ غریب ہیں لیکن زمیندار سسٹم کے پروردہ ہیں اور اسی کو پسند کرتے ہیں۔ وہ بیلا کو پسند نہیں کرتے کیونکہ وہ ایک نچلے طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ اور انھیں اس بات کا افسوس ہے کہ کسی رئیس خاندان کی لڑکی اس گھر میں بہو بن کر نہیں آئی ان ملازمین میں بوڑھی ملازمہ الحمدو کی تو خاص اہمیت یہ ہے کہ وہ کہانی کے ارتقا میں ایک کلیدی رول ادا کرتی ہیں اور منشی بھوانی شنکر سوختہ کی شخصیت کے خدوخال بھی کافی نمایاں ہیں۔ وہ ایک بہت بڑے عالم، فاضل شخص ہیں۔ اردو فارسی اورسنسکرت کے عالم ہیں اور اردو میں شاعری بھی کرتے ہیں۔ ان کی حیثیت خاندان کے بزرگ کی سی ہے۔ وہ کوٹھی ہی کے ایک کمرے میں رہتے ہیں اور اس خوفناک آگ میں وہ بھی قنبر علی اور بیلا کے ساتھ جل کر راکھ ہو جاتے ہیں اور اب اگرہم ریڈ روز ہاؤس سے تین کٹوری ہاؤس کا رُخ کرتے ہیں تو گوکہ یہ بھی رئیسوں کا گھرانہ ہے اور اس کے مالک راجہ کہلاتے ہیں لیکن یہاں کا ماحول ریڈ روز ہاؤس سے کافی مختلف ہے۔ راجہ صاحب خود تو ایک شریف اور بے ضرر سی شخصیت ہیں لیکن یہاں رانی صاحبہ کا حکم چلتا ہے۔ جو نہایت مغرور اور ڈکٹیٹر قسم کی خاتون ہیں اور کافی ذہین بھی۔ ان کی بڑی لڑکی زرینہ (زینی)انھیں کی ہم خیال اور مشبہ خاص ہے۔ نوکروں اور خاندان والوں پر حکم چلانا اس کی فطرت میں داخل ہے اور اسی سے اسے اپنی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔ وہ تین بچوں کی ماں اور ایک مطلقہ خاتون ہے اور اپنی بدقسمتی کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتی ہے اور کسی کو بخشنے کی عادی نہیں ....رانی صاحبہ کی دوسری بیٹی پروین (پینی) کافی بیوقوف ہے اور شادی سے پہلے وہ ایک سراسر رومانوی ہستی تھی۔ فلمی انداز کے رومانٹک خیالوں میں ڈوبے رہنا اور دھوم دھام سے دلیپ کمار کی سالگرہ منانا اس کے محبوب مشغلے تھے۔ بی۔اے پاس کرنے کے فوراً بعد اس کی شادی پاکستان میں ہوتی ہے اور جب وہاں سے واپس آتی ہے تو وہ ایک بدلی ہوئی شخصیت ہے۔ اب وہ ایک نہایت مغرور اور فیشن ایبل خاتون ہے اور اپنی اہمیت کے نشے میں سرشار۔ وہ ہر بات میں پاکستان سوسائٹی کو ہندوستان کے مقابلے میں برتر اور زیادہ موڈرن ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اور اس کا یہ رویہ آخر تک قائم رہتا ہے۔ جب کہ اس کے بچے بھی جوان ہو چکے ہیں۔ چاندنی بیگم کے ساتھ اس کا سلوک اس کی بے حسی اور بد دیانتی کی دلیل ہے۔ وہ نہ صرف اس مظلوم اور تعلیم یافتہ لڑکی سے اپنے کپڑے سلواتی ہے اور اس سے نوکروں سے بدتر سلوک کرتی ہے بلکہ اپنے بھائی بوبی کی سازش میں شامل ہو کر دوسرے بھائی وکی کے ساتھ اس کی شادی کی بھی مخالفت کرتی ہے۔ اور اسے اپنے بچوں کی آیا بنا کر اپنے ساتھ امریکہ لے جانے کا منصوبہ بناتی ہے۔ لیکن جب اس کی ماں اسے سمجھاتی ہے کہ چاندنی اس سے کم عمر زیادہ خوبصورت اور زیادہ ذہین ہے اور اس کے شوہر کافی دل پھینک واقع ہوئے ہیں تو وہ بڑی بے حیائی سے یہ پروگرام منسوخ کر دیتی ہے اور چاندنی بیگم کو کسمپرسی کی حالت میں چھوڑ کر پاکستان روانہ ہو جاتی ہے۔


ان دونوں کے مقابلے میں رانی صاحبہ کی چھوٹی بیٹی صفیہ (فینی) کی شخصیت زیادہ پیچیدہ اور جاذب توجہ ہے۔ فینی کو جو بہت خوبصورت تھی، اسے قنبر علی کی دادی نے صفیہ کی نانی سے پیدائش کے وقت ہی قنبر کے لیے مانگ لیا تھا یعنی یہ ٹھیکرے کی مانگ تھی۔ اور صفیہ نے بچپن ہی سے قنبر کو اپنا ہیرو مان لیا تھا۔ گیارہ بارہ سال کی عمر میں اس پر پولیو کا حملہ ہوا اور رفتہ رفتہ وہ زیادہ حساس ہو گئی۔ اور جب قنبر علی نے انقلابی لیڈر بننے کے بعد کسی رئیس زادی سے شادی کرنے سے انکار کر دیا تو صفیہ پر اس کا گہرا اثر ہوا۔ اور اسے یہی محسوس ہوا کہ اس کے لولے پن کی وجہ سے اس کے ہیرو نے اسے رجکٹ کیا ہے۔ اپنی اس مایوسی سے ابھرنے کے لیے اس نے ساری توجہ ایجوکیشن پر مرکوز کر دی۔ ڈبل۔ ایم۔ اے کیا اور ایجوکیشن میں پی۔ایچ۔ ڈی (Ph.D) بھی کی۔ اور پھر ایک انگلش میڈیم اسکول کھول کر اسی میں مدغم رہنے لگی۔ اس نے پھر کوئی پیغام بھی منظور نہیں کیا۔ صفیہ کو عام طور پر ناول میں خاصے منفی انداز سے پیش کیا گیا ہے۔ اس کے خاندان کے لوگ اس کی کنجوسی، آدم بیزاری اور جھکی پن کو نشانہ بنائے رہتے ہیں۔ لیکن اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو صفیہ کی شخصیت کے مثبت پہلو ہمیں متاثر کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ وہ ایک رئیس زادی ہے اس میں تو اس کا کوئی قصور نہیں۔ لیکن جس بہادری اور خود داری سے وہ صورت حال کا سامنا کرتی ہے اور جس طرح وہ اپنی زندگی کا نقشہ مرتب کرنے کی کوشش کرتی ہے اس سے بہتر شاید اس ماحول میں ممکن بھی نہیں تھا۔ اگر وہ چڑچڑی اور جھکی ہوتی جا رہی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ اس ماحول میں کوئی بھی اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا اور صفیہ بے حد تنہا ہے۔ چاندنی بیگم کی طرف بھی اس کا رویہ اوروں سے بہتر ہے۔ گو کہ اسے معلوم ہے کہ چاندنی وہی لڑکی ہے جسے بٹو بیگم نے قنبر کے لیے پسند کیا تھا۔ اور اس کے یہ خیالات:


’’ایک نرم و نازک پھول غیر محفوظ لڑکی روئی کے اس ہوائی پھول کی طرح تیرتی ہوئی یہاں آ گئی۔ اور یہ سب مل کر اپنی اپنی غرض کے لیے طرح طرح کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ بڑی بہو یا آیا۔ واہ‘‘ صفیہ نے حقارت سے سوچا ’’اور بولی— اگر ان کا بس چلے تو وہ اسے اپنی مسٹرس بنا لیں۔‘‘


 (چاندنی بیگم، ص ۱۲۵)


قاری کو اپنے ہی دل کی آواز معلوم ہوتے ہیں — صفیہ کی اچانک موت سے پہلے قرة العین حیدر نے اس کی Stream of Conscious یا اندرونی مکالمے کو جس دیدہ وری اور چابکدستی سے پیش کیا ہے۔ اس سے بھی اس کی شخصیت کے کچھ اسرار کھلتے ہیں۔ اور اگلے دن تین کٹوری ہاؤس میں سوگواروں کا ہجوم، قرآن خوانی وغیرہ، مہمان خواتین کی گفتگو اور صفیہ سلطان کے جنازے کا جلوس تو اپنے گہرے مشاہدے ، حساس منظر کشی اور سفاک حقیقت نگاری میں لاجواب اور ناقابل فراموش ہیں اور اس کے ساتھ ہی ناول کا اختتام بھی مصنفہ (مس حیدر) کا ایک ماسٹر سٹروک ہے۔


البتہ راجہ صاحب کے بڑے صاحب زادے وکی میاں بالکل مختلف قسم کے انسان ہیں اور اس ناول کے ایکشن کے دوران ہم انھیں کئی روپ میں دیکھتے ہیں۔ایک رئیس زادے کی حیثیت سے وہ قانون کی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے لندن گئے تھے۔ اور پڑھائی لکھائی سے زیادہ سیرو تفریح اور کلچرل سرگرمیوں میں مصروف رہے ، اور جوانی کے جوش میں جس میں انقلابی جوش کا عنصر بھی شامل تھا ایک گانے والی جپسی لڑکی سے متاثر ہو کر بلکہ اس پر ترس کھا کر اس سے شادی کر بیٹھے۔ وہ لڑکی نہ صرف غیر تعلیم یافتہ تھی بلکہ ذہنی طور پر بھی پسماندہ تھی۔ اور جب وکی اپنی دلہن کو لے کر اور غالباً بغیر کوئی ڈگری لیے وپس آئے تو وہ تین کٹوری کے محل میں ایک عجوبہ بن گئی۔ گو وہ کسی کادنٹ کے آوارہ لڑکے کی ناجائز اولاد ضرور تھی (اور اسی حیثیت سے وکی نے اسے متعارف کرایا) لیکن اس کی ساری زندگی اپنی جپسی ماں کے ساتھ گزری تھی۔ وہ کئی سال اس محل کی چاردیواری میں قید رہی اور وکی اس کی عجیب عجیب حرکتوں سے تنگ آ کر اسے زد و کوب بھی کرتے رہے یہاں تک کہ اس نے بھیس بدل کر زنخوں کے ساتھ فرار ہو جانے ہی میں اپنی عافیت جانی۔ اور اسی دوران وکی بھی اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھے۔ اور جب ہم پہلی بار انھیں دیکھتے ہیں تو وہ اسی دور سے گزر رہے ہیں ، البتہ جب چاندنی بیگم وہاں انتہائی کسمپرسی کے عالم میں جاتی ہے اور سب لوگ اس سے نوکروں جیسا برتاؤ کرتے ہیں تو وکی اس میں کافی دلچسپی لیتے ہیں اور اسے کادمبری کے لقب سے نوازتے ہیں۔ چاندنی بیگم سے اپنی مختصر ملاقات کے دوران قنبر علی اس سے کہتا ہے کہ وکی میاں بھی اس کی طرح ایک انقلابی ذہن رکھنے والے آئیڈلسٹ تھے۔ لیکن تقسیم ہند اور ۱۹۴۷ء کے المناک حادثات نے انھیں ہلا کر رکھ دیا اور وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے۔ اور بہت سال بعد وکی بھی اسی خیال کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن ہم یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اس صورت حال کا ان کی بے تکی شادی سے بھی گہرا تعلق ہے۔ اور اسی لیے چاندنی بیگم سے ان کا ہلکا پھلکا لیکن پر خلوص تعلق ان کے نارمل ہونے میں معاون ثابت ہوتا ہے اور اس میں فطرت سے ان کے والہانہ تعلق کو بھی خاصا دخل ہے۔ مجموعی طور پر ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ وکی ایک شاعرانہ اور فلسفیانہ ذہن رکھنے والے آئیڈلسٹ ہیں۔ لیکن وہ شاعر نہیں اور ان کا کوئی اور تخلیقی اظہار بھی نہیں ہے۔ اس لیے یہ شدت فکرواحساس بھی ان کے لیے سوہان روح بن جاتی ہے۔ خاص طورسے اس قسم کے بے روح اور زرپرست ماحول میں جہاں کسی کو ان باتوں کی فرصت نہیں وکی کی والدہ چاندنی بیگم کے ساتھ وکی کی شادی کا منصوبہ بناتی ہیں۔ اور خود چاندنی بھی یہ رسک (Risk) لینے کے لیے تیار ہو جاتی ہے کیونکہ وہ بالکل بے یارو مددگار ہے۔ اور اسے وکی سے ہمدردی بھی ہے۔ لیکن پھر ایک سازش کے تحت جو بوبی نے اپنے ذاتی مفاد کو پیش نظر رکھ کر رچائی ہے یہ شادی منسوخ ہو جاتی ہے ، اور کچھ عرصے بعد وکی کا نکاح الائچی خانم کی نواسی سے کر دیا جاتا ہے جو اس خاندان کی مغلانی ہیں۔

٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول