صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


ایک جانب چاندنی

احمد فواد

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

غزلیں



کہکشاں میں جگہ بنا لوں گا
میں بھی کچھ دیر ٹمٹما لوں گا
تم سمندر کا دل بڑھاتے رہو
آسمانوں کو میں بچا لوں گا
گر تمہاری خوشی اسی میں ہے
دل کو دنیا سے میں اٹھا لوں گا
تیرے جانے سے کچھ نہیں ہوتا
شہر یہ پھر سے میں بسا لوں گا
تجھ کو فرصت نہیں تو رہنے دے
کام دنیا کا میں چلا لوں گا
اب یہ یادوں کے دیپ بجھنے دے
میں ستارہ کوئی جلا لوں گا
آرزوئیں عزیز ہیں ساری
تم سے میں سب کا خوں بہا لوں گا
اب محبت سے ہو گئی نفرت
تُو ملا گر تو زہر کھالوں گا
لے یہ دنیا تجھے مبارک ہو
میں نیا اک جہاں بنا لوں گا
دل تو اپنا میں تجھ کو دے دیتا
اس کے بدلہ میں تجھ سے کیا  لوں گا
آج کل تو نہیں ذرا فرصت
پھر کسی دن تجھے منا لوں گا
۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔


تو کہاں زندگی بسر کرتا

کون اس راستہ سے گزرا ہے

چاند تارے ادھر ادھر کرتا

پھر وہ بدمست آفتاب آیا

سب گھٹاؤں کو دربدر کرتا

کس کی تصویر کو میں دن کہتا

کس کے خوابوں میں شب بسر کرتا

جاؤں ہونے سے پھر نہ ہونے میں

آسمانوں کو رہگزر کرتا

اپنا دل بھی اُسی کو دے آیا

اور کیا میرا نامہ بر کرتا

اک حسیں چشم دل میں آیا ہے

ساری دنیا اِدھر اُدھر کرتا

کیا خدائی میں فرق آ جاتا

میری جانب اگر نظر کرتا

تیرے سینہ میں دل اگر ہوتا

تجھ پہ نالہ کوئی اثر کرتا

کون پلکیں جھکائے گزرا ہے

خود سے ہر شے کو بے خبر کرتا

تو نہ آتا تو اس خرابے میں

پھر کوئی شاعری کدھر کرتا

۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔


جو بھی پیتا ہے پھر نہیں اٹھتا
موت اس جام میں بھرا کیا ہے
ہر طرف بے خودی سی طاری ہے
تیری آنکھوں میں یہ نشہ کیا ہے
ایسے پھرتی ہے پاگلوں کی طرح
تجھ کو بادِ صبا ہوا کیا ہے
سب کھلونے ہیں ٹوٹ جائیں گے
شاہ کیا چیز ہے گدا کیا ہے
رات دن کیوں ہے ایک چکّر میں
تجھ کو تکلیف اے ہوا کیا ہے
کون رکھتا ہے پھول میں خوشبو
یہ ستاروں کا قافلہ کیا ہے
کیوں زمانہ ہے ایک گردش میں
رات دن کا یہ سلسلہ کیا ہے
ہے مکاں سے پَرے مکاں جس کا
اُس کو دنیا میں ڈھونڈتا کیا ہے
کس لئے موت سے گریزاں ہے
زندگی نے تجھے دِیا کیا ہے
آسمانوں کو تکتا رہتا ہوں
آسمانوں سے ماورا کیا ہے
جی میں آتا ہے جو بھی کر گزرو
یاں روا کیا ہے ناروا کیا ہے
ساری آنکھیں ہیں اس کی آنکھوں میں
ان میں کھو جاؤ سوچتا کیا ہے
کون رس گھولتا ہے کانوں میں
دل کے نزدیک یہ صدا کیا ہے
سب کے ہونٹوں پہ ایک قصّہ ہے
شاعری میں نیا دھرا کیا ہے
پھر کوئی خون ہو گیا دل میں
آنسوؤں میں یہ رنگ سا کیا ہے
اب بھی اُس بے وفا پہ مرتا ہے
اور اس دل کا سانحہ کیا ہے
خاک میں سب کو کیوں ملاتا ہے
ساری مخلوق کی خطا کیا ہے

٭٭٭٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول