صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
چاند کی ضد نہ کرو
یوسفؔ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
جد ا نا ؤ سے جب کنار ا ہوا تھا
میں اس روز ہی بے سہا را ہوا تھا
وہ کیا پل تھا جب شام کے جھٹپٹے میں
ہم اس کے ہوے وہ ہما را ہو ا تھا
نہ جا نے تجا رت وہ کیوں میں نے کی تھی
مجھے جس میں پہلے خسارہ ہو ا تھا
اسے میں نے جتو ا یا تھا مات کھا کر
و گر نہ وہ با زی تو ہا را ہو ا تھا
اسے پہلوئے غیر میں دیکھتے ہی
دلِ نا سمجھ پارہ پا رہ ہو ا تھا
سنبھل کے میں کر تا تو کر تا بھی کیا
مقدّر کا ڈوبا تو تا رہ ہو ا تھا
کو ئی بھی نہ پہچان سکا میکدے میں
عجب رو پ واعظ نے دھا را ہو ا تھا
سنا ہے و ہاں اس نے کی خود کشی ہے
جہاں اس نے یوسفؔ کو ما را ہو ا تھا
٭
پہلے تو بحرِ دل میں قدم ڈالتا ہوں میں
پھر موج موج سنگِ صبا نا چتا ہوں میں
ہر شام نا امید لوٹاتا ہے مجھ کو وہ
ہر صبح پھر نئی امید باندھتا ہوں میں
شا ید کرے وہ رو پ یہ پسند سوچ کر
ہر روز ا یک روپ نیا دھارتا ہوں میں
باندھی ہی میں نے بات کی تمہید تھی ا بھی
بو لا وہ جو تو چاہتا ہے جانتا ہوں میں
کیوں پھر رہے ہو بھٹکتے صحرائے شوق میں
منزل پہ پہنچنے کا فقط ر ا ستہ ہوں میں
تجھ پہ ذرا سا چاہتا ہوں حق ، مرے خدا !
تجھ سے تری خدا ئی نہیں مانگتا ہوں میں
یوسفؔ ! لگا ہے کیسا مرا حسنِ انتخاب
لاکھوں میں ایک ہے وہ جسے چاہتا ہوں میں
٭٭٭٭٭٭٭٭