صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
چاند تاروں کا بن
مخدوم محی الدین
ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
چارہ گر
اک چنبیلی کے منڈوے تلے
مے کدے سے ذرا دور اس موڑ پر
دو بدن / پیار کی آگ میں جل گئے
پیار حرف وفا
پیار ان کا خدا
پیار ان کی چتا
دو بدن
اوس میں بھیگتے
چاندنی میں نہاتے ہوئے
جیسے دو تازہ رو تازہ دم پھول پچھلے پہر
ٹھنڈی ٹھنڈی سبک رو چمن کی ہوا
صرف ماتم ہوئی
کالی کالی لٹوں سے لپٹ گرم رخسار پر
ایک پل کے لیے رک گئی
ہم نے دیکھا انھیں
دن میں اور رات میں
نور و ظلمات میں
مسجدوں کے مناروں نے دیکھا نہیں
مندروں کے کواڑوں نے دیکھا انھیں
مے کدے کی دراڑوں نے دیکھا انھیں
از ازل تا ابد
یہ بتا چارہ گر
تیری زنبیل میں
نسخۂ کیمیائے محبت بھی ہے ؟
کچھ علاج و مداوائے الفت بھی ہے ؟
٭٭٭
انتظار
رات بھر دیدۂ نمناک میں لہراتے رہے
سانس کی طرح سے آپ آتے رہے جاتے رہے
خوش تھے ہم اپنی تمناؤں کا خواب آئے گا
اپنا ارمان برافگندہ نقاب آئے گا
نظریں نیچی کیے شرمائے ہوئے آئے گا
کاکلیں چہرے پر بکھرائے ہوئے آئے گا
آ گئی تھی دلِ مضطر میں شکیبائی سی
بج رہی تھی مرے غم خانے میں شہنائی سی
پتیاں کھڑکیں تو سمجھا کہ لو آپ آ بھی گئے
سجدے مسرور کہ مسجود کو ہم پا بھی گئے
شب کے جاگے ہوئے تاروں کو بھی نیند آنے لگی
آپ کے آنے کی اک آس تھی اب جانے لگی
صبح نے سیچ سے اٹھتے ہوئے لی انگڑائی
اور صبا تو بھی جو آئی تو اکیلی آئی
میرے محبوب مری نیند اڑانے والے
میرے مسجود مری روح پہ چھانے والے
آ بھی جا، تاکہ مرے سجدوں کا ارماں نکلے
آ بھی جا تا ترے قدموں پہ مری جاں نکلے
٭٭٭