صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


چاند کی مرضی

انشائیے

ہاجرہ بانو

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                   ٹیکسٹ فائل

کھیل کھیل میں

کھیل کھیل میں کچھ یوں ہوا کہ بہت ساری کھلاڑی کروڑوں میں بک گئے۔ چند تو اپنے ہنر اور دوسروں کی مہارت کی وجہ سے روشنی میں آئے اور خریدے گئے اور باقی فراز ؔ کے یہ دو مصرعے دہراتے ہوئے بک گئے کہ:
کسی کی کیا مجال تھی جو کوئی ہم کو خرید سکتا فرازؔ
ہم تو خود ہی بک گئے خریدار دیکھ کے
باقی ماندہ اپنی قسمت کا رونا روتے منہ بسور کر رہ گئے۔ سنتے ہیں کہ کسی زمانے میں والدین بچوں کو کھیل سے دور رہنے کی تاکید کرتے کرتے اپنی زبان، حلق، دماغ، اور آخر میں اپنی ذات کو خشک کر دیا کرتے تھے۔ علم کی اہمیت و فضیلت کے فوائد کے ثمر، جنت الفردوس میں ملنے کی بشارت دیتے تھے۔ گردش وقت کی رفتار کی تیزی نے سارے معاملے کو پلٹ کر رکھ دیا۔ یکسر الٹا تو نہیں کیا البتہ جہاں سے چلا تھا دوبارہ وہیں پہنچ گیا۔ یعنی ہر ذی روح دنیا میں آنے کے بعد ہاتھ پیر چلا لے تو دنیا یہ اس کی صحت مندی کی دلیل سمجھتی ہے۔ دراصل وہ یہ کہتا ہے کہ اب میں اس دنیا میں کھیل کھیلنے کے لیے آگیا ہوں۔ پھر وہ ایمانداری، دیانتداری، خونخواری، نقاب پوشی، نقاب کشائی اور اقتداری کھیل، کھیل کر اپنے داؤ پیچ آزما کر اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔
ویسے بچپن سے نفسیات کی عینک سے ہم دیکھیں تو صاف پتہ چلے گا کہ یہ بچہ بڑا ہو کر کیا کرے گا۔ وہ کہتے ہیں نا کہ پوت کے پاؤں پالنے میں دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ مستقبل کے خواب ہوتے ہیں جو وہ بچپن میں اپنے کھیلوں کے اسکرین پر پیش کرتا ہے۔ کئی قاتلوں کو ان کے بچپن میں تتلیوں کے پنکھ اور پھولوں کی پنکھڑیوں کو مسلنے میں کیف و سرور حاصل کرتے پایا گیا۔ ایسے جذبوں سے متاثرہ بچوں کو اگر یہ سمجھایا جائے کہ خوبصورت و معصوم جاندار کی بجائے بے جان چیزوں پر اگر تمہاری عبوریت ہو تو تم ضرور فاتح کہلاؤ گے تو یقین کریں وہ بچے ضرور سائنسداں بنیں گے۔ بشرطیکہ سلیقہ سے ان کے ذہن کو یوٹرن U-Turn دیا جائے۔ اگر بچہ کو اس کی فطرت اور خوابوں کے مطابق اس کے پوشیدہ جذبات سے ترقی کے راستے واضح ہوتے ہیں تو اس میں کیا قباحت ہے۔
جب خواب نہ دیکھو گے تو کسی تعبیر
جب رنگ نہ ہو گا تو کہاں کی تصویر
کھیلوں کا جذبہ جانوروں میں بھی پایا جاتا ہے۔ ٹام اینڈ جیری Tom & Jerry  سے لے کر تمام حیوانات فطرت کے تقاضے کے تحت اسی طرح اپنی تفریح طبع کا انتظام کرتے ہیں۔ افزائش سے اجل تک اسی کھیل کے کھلاڑی بنے رہتے ہیں صرف مقصد بدلتا رہتا ہے۔ پہلے سانس لے کر کھڑا ہونے کا کھیل، پھڑ غذا حاصل کرنے کا کھیل، لڑائی سیکھنے کے گُر، علاقے اور مادہ کے لیے جسمانی طاقت کی نمائش کا کھیل اور پھر عمر رفتہ کے ساتھ اپنی کھوکھلی قابضانہ نمود کا کھیل۔
سالوں بلکہ صدیوں تک چلنے والے داستان گوئی اور شنوئی کا کھیل بہت پسند کیا گیا کیونکہ ہر انسان طلسماتی دور میں ہی رہنا چاہتا ہے۔ اور خود کو طلسمی قالین پر براجمان کر کے بڑے بڑے ہوائی قلعے تسخیر کرتے ہوئے دیکھنے میں لطف اندوزی محسوس کرتا ہے۔ اسی لیے کمپیوٹر کے اس دور میں بھی ہیری پوٹر Harry Potter جیسی فلم نے مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔ یہ دور بالکل بھی ختم ہو گیا ایسا بھی نہیں ہے بلکہ اس کی جگہ ٹی وی، ٹیلی کاسٹ کے ڈیلی سوپ نے لے لی ہے۔
کھیل کے اس شوق میں انسان کو مقابلہ آرائی کا شوق بھی پیدا ہوتا ہے۔ اس کے دو پہلو ہیں اگر مثبت ہوں تو شخصی اور ملکی دونوں کے لیے فائدہ مند ہوں گے۔ برٹرنڈرسل نے انگلینڈ کی تعلیمی پالیسیوں میں جسمانی کھیلوں کی اہمیت کو تجارتی اور سلطنت کے نقطہ نظر سے مضر خیال کیا ہے۔
اب طلباء کے نصاب میں جسمانی تعلیم کی بہت اہمیت ہے۔ سرکاری و نیم سرکاری ملازمتوں کے لیے انٹرویوز میں کھیلوں کے سرٹیفکیٹس سے وزن میں اضافہ ہو گیا۔ لے دے کے ریاستی سطح پر پہنچنے والے کھلاڑیوں کے لیے تو ملازمتیں خود دست بستہ تیار کھڑی رہتی ہیں۔ لیکن یہ بات بھی روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جسمانی کھیلوں سے صحت و تندرستی شگفتہ رہتی ہے۔ انسان خود کو ہشاش بشاش محسوس کرنے لگتا ہے اور خوب سیرت افراد کی صنف میں شامل ہو جاتا ہے کیونکہ مفلسی، ناداری اور مہنگائی جیسے ہزاروں دیکھ سہنے کے باوجود اس کے لب گریہ و زاری کے لیے نہیں کھلتے۔ شاید اسی لیے حکومت کھیلوں کو اتنی اہمیت دے رہی ہے۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں  

   ورڈ فائل                                                   ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں  مشکل؟؟؟

یہاں  تشریف لائیں ۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں  میں  استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں  ہے۔

صفحہ اول