صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
چالاک خرگوش کے کارنامے
معراج
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
مکھّن چور
بہت
دن گزرے جنگل کے سب جانور اکھٹّے رہا کرتے تھے۔ وہ سب ایک ہی تھالی میں
کھانا کھاتے، ایک ہی چشمے میں پانی پیتے، گرمیوں میں مل جل کر کام کرتے
اور سردیوں میں ایک ہی غار میں آرام کرتے۔ اُن دنوں سب جانوروں کو مکھّن
کھانے کا بڑا شوق تھا۔ چنانچہ اُن کے مکھن کا ذخیرہ بھی ایک ہی تھا۔ جب
کسی کو ضرورت ہوتی تو وہ تھوڑا سا مکھّن نکال کر کھا لیتا۔
ایک دن
انہوں نے دیکھا کہ کسی نے بہت سا مکھن چرا لیا ہے۔ سب جانوروں کو بڑی
تشویش ہوئی۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہر روز ایک جانور ساری رات جاگ کر پہرا
دے۔ پہلی باری ریچھ کی آئی۔ وہ مرتبان سامنے رک کر بیٹھ گیا۔ بیٹھے بیٹھے
ریچھ کی ٹانگیں درد کرنے لگیں۔ رات کے پچھلے پہر باہر کھُسر پھُسر کی آواز
سنائی دی۔ ریچھ کے کان کھڑے ہو گئے۔ کوئی آہستہ آہستہ کہہ رہا تھا، "بیری
کے درخت والے چھتّے میں سوراخ ہو گیا ہے۔ سارا شہد بہا جا رہا ہے، بھیّا
ریچھ ہوتے تو انہیں بتا دیتا۔"
ریچھ شہد کھانے کا بڑا شوقین تھا۔ وہ
سب کچھ بھول بھال کر باہر کی طرف لپکا۔ اُدھر خرگوش اندر آیا اور مکھّن کا
مرتبان نکال کر جی بھر کے مکھّن کھایا اور ریچھ کے آنے سے پہلے باہر چلا
گیا۔ بے چارا ریچھ ناکام واپس لوٹا۔
اگلی صبح جانوروں نے مکھّن کم پایا تو انہوں نے ریچھ کو بہت برا بھلا کہا اور سزا کے طور پر سال بھر کے لیے اس کا مکھّن بند کر دیا۔
اگلے
دن کتّے کی باری تھی۔ وہ دن بھر پہرا دیتے دیتے تھک گیا۔ رات کو پھر خرگوش
آیا۔ اس نے کتّے کو زور سے سلام کیا، "ہیلو بھیّا بھوں بھوں! کیسے مزاج
ہیں؟"
کتّا بولا، "صبح سے بیٹھے بیٹھے تنگ آ گیا ہوں۔"
خرگوش بولا، "تو آؤ ذرا دوڑ لگائیں۔"
کتا
دوڑنے کا بہت شوقین تھا۔ جھٹ تیار ہو گیا۔ خرگوش نے کہا، "میں گھاس میں
دوڑتا ہوا لمبا چکّر کاٹ کر پل تک جاتا ہوں، تم سڑک سڑک جاؤ، دیکھیں پہلے
کون ہاتھ لگا کر واپس لوٹتا ہے۔"
کتّا مان گیا۔ دوڑ شروع ہوئی۔ خرگوش
گھاس میں کچھ دور دوڑا، پھر دُبک کر بیٹھ گیا۔ جب کتّا کافی دور نکل گیا،
تب وہ اطمینان سے باہر نکلا اور اس نے گودام میں جا کر جی بھر کے مکھّن
کھایا اور پھر گھاس میں چھپ گیا۔
اتنے میں کتّا دوڑ لگا کر واپس آ گیا۔ اس نے ہانپتے ہوئے آواز دی، "اے خرگوش بھیّا! کہاں ہو تم؟"
خرگوش نے گھاس سے سر نکالا اور جھوٹ موٹ ہانپتا ہوا باہر آیا اور کتّے سے ہاتھ ملا کر گھر کو چل دیا۔
اگلے دن بےچارہ کتّا بھی سال بھر کے لیے مکھّن سے محروم کر دیا گیا۔
اب
بھیڑیے کی باری تھی۔ وہ بھی دن بھر مرتبان سامنے رکھ کر بیٹھا رہا۔ رات کو
خرگوش پھر آیا۔ اس نے بھیڑیے کو گدگداتے ہوئے کہا، "کتنے چور پکڑ لیے ہیں
بھیڑیے خان؟"
بھیڑیا گدگدی کے مارے ہنسنے لگا۔ خرگوش نے اور زیادہ گدگداتے ہوئے کہا، "اتنا نہیں ہنسا کرتے بھیڑیے بھیّا!"
بھیڑیا
اور زور زور سے ہنسنے لگا۔ اسے گدگدی بہت ہوتی تھی۔ خرگوش نے دونوں ہاتھوں
سے گدگداتے ہوئے کہا، "جو زیادہ ہنستا ہے، وہی زیادہ روتا بھی ہے۔"
بھیڑیا
ہنستے ہنستے اپنی کرسی سے لڑھک گیا اور زمین پر لوٹنے پوٹنے لگا۔ خرگوش نے
اسے کرسی پر بٹھایا اور گرد جھاڑنے کے بہانے اس کی آہستہ آہستہ مالش کرنے
لگا۔
بھیڑیا سو گیا۔ تب خرگوش اندر گیا۔ اس نے جی بھر کے مکھّن کھایا
اور اپنے گھر کی راہ لی۔ اگلے دن بھیڑیے کا بھی وہی حشر ہوا۔ سال بھر کے
لیے مکھّن بند!
اب لومڑ کی باری تھی۔ رات کو پھر خرگوش آیا۔
"اوہو! آج لومڑ بھیّا کی باری ہے۔" خرگوش نے کہا، "کتنے چور پکڑ لیے ہیں بھیّا جی؟"
لومڑ نے بیزاری سے کہا، "صبح سے بیٹھے بیٹھے تنگ آ گیا ہوں۔"
خرگوش بولا، "تو آؤ آنکھ مچولی کھیلیں۔"
"اور اگر چور آ گیا تب؟"
خرگوش بولا، "ہم دونوں اس کا بھُرتا بنا دیں گے۔"
لومڑ
مان گیا۔ دونوں درختوں کے پیچھے آنکھ مچولی کھیلتے رہے۔ کچھ ہی دیر میں
لومڑ اتنا تھک گیا کہ وہ آرام کرنے زمین پر لیٹا اور لیٹتے ہی سو گیا۔
اگلے دن اس کو بھی سزا ملی۔ سال بھر تک مکھّن بند۔
لومڑ
ذرا ہوشیار جانور تھا۔ اس نے اپنا شبہ خرگوش پر ظاہر کیا۔ اب تو سب جانور
باری باری اپنی آپ بیتی بیان کرنے لگے۔ سب کو یقین ہو گیا کہ خرگوش چالاکی
سے مکھّن چُرا لیتا ہے۔ سب جانوروں نے اس دفعہ جنگل کے جاسوس بندر کو چور
پکڑنے کے لیے مقرّر کیا۔
بندر مکھّن کا مرتبان نیچے رکھ کر اس پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔
رات کو خرگوش آیا، "ہیلو بھیّا بندر! کیسے مزاج ہیں؟"
"بہت برے۔" بندر نے رکھائی سے جواب دیا، "صبح سے سر درد اور زکام ہے۔"
"تو آئیے سیر کو چلیں۔" خرگوش بولا۔
"نہیں بھیّا! بالکل موڈ نہیں ہے۔" بندر رکھائی سے بولا۔
آنکھ مچولی بھی نہیں کھیلو گے؟" خرگوش نے اشتیاق سے پوچھا۔
بندر بولا، "نہیں، مجھے بچوں کے کھیل پسند نہیں آتے۔"
خرگوش نے حیرانی سے پوچھا، "تو پھر کونسا کھیل پسند ہے تمہیں؟"
بندر بولا، "رسّا کشی۔"
خرگوش مان گیا۔ بندر نے جھٹ پٹ خرگوش کی دُم سے رسّا باندھا۔ اس دوسرا سِرا درخت سے باندھ کر بولا، "کھینچیے رسّا۔"
اب
خرگوش رسّا کھینچنے میں مصروف رہا۔ اُدھر بندر سب جانوروں کو بلا لایا۔
خرگوش انہیں آتے دیکھ کر چونکنا ہوا اور ساری بات بھانپ گیا۔ اس نے دُم
چھڑانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔
بےچارا خرگوش پکڑا ہی گیا،
جانوروں نے سزا کے طور پر اس کی دُم کاٹ ڈالی اور اس کے کانوں کو زور زور
سے کھینچا۔ کہتے ہیں میاں خرگوش تب سے لنڈورے ہیں اور اس کے کان بھی لمبے
ہیں۔ اس دن سے خرگوش جنگل کے جانوروں سے علیحدہ رہتا ہے۔
٭٭٭