صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
کارنیوال
جمیل الرحمن
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
دیکھو ! مَیں سیب نہیں کھا سکتا
مَیں ایک عالمِ کشف میں ہُوں
کشتیوں کے تلے بہتا ہُوا پانی سو گیا ہے
اور کشتیاں اُس پر
اُس کے گناہوں کا نشان بن کر جھُول رہی ہیں !
صدیوں کی بھوک اور پیاس کو سنبھالے
ایک ممنوع رستے میں
سیب کے دو رویہ پیڑوں کی چھاؤں میں
ایک سانپ کو اپنی ایڑی پر ڈستے دیکھتا ہُوں
اور اپنے اِرد گِرد کشف کی نیم غنودگی پھیلائے
مَیں خود پر ہنس رہا ہُوں !
نرم ہَوَا میری نیم وا آنکھوں سے
آنسُو نچوڑ رہی ہے
اور وہ اُن پرندوں کے
پروں میں جذب ہوتے جا رہے ہیں
جن کی اُڑانوں کی تکان
درختوں کے بدن میں اُتر آئی تھی
انھی پیڑوں کے سایے میں
مقدس صحائف کے کھُلے اوراق پر
بس ایک ہی آیت جگمگا رہی ہے
ہر جان اپنے اعمال کا بوجھ خود اٹھائے گی!
تو کیا کہتے ہو؟
مَیں اِس کشف کا ہر منظر
اپنی آنکھوں کے رومال میں لپیٹ لُوں ؟
جب کہ
رفتگاں کے قافلوں کے اُونٹوں کی گردنوں میں بندھی
گھنٹیاں ابھی تک بج رہی ہیں
اور اُن کے حُدی خوانوں کی حُدی سننے والا
اِس ممنوع رستے میں
اب اور کوئی نہیں
سیب کے پیڑوں کے علاوہ !
میری بھُوک مجھے جہاں کھینچ لائی ہے
آئینوں کے درمیان
خواب اور خواہشیں
ضمیر کی میزان میں تُل رہی ہیں !
مَیں حالتِ کشف میں ہُوں
اور پانی کا گناہ
سیبوں کی خوشبو میں گھل رہا ہے
دیکھو!مَیں یہ سیب نہیں کھا سکتا
٭٭٭