صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
کار، کابلی والا اور الہ دین بے چراغ
مشتاق احمد یوسفی
انتخاب از ’آبِ گم‘
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اعصاب پر گھوڑا ہے سوار
علامہ اقبال نے ان شاعروں، صورت نگاروں اور افسانہ نویسوں پر بڑا ترس
کھایا ہے جن کے اعصاب پر عورت سوار ہے۔ مگر ہمارے حبیبِ لبیب اور ممدوح
بشارت فاروقی ان بدنصیبوں میں تھے جن کی بے داغ جوانی اس شاعر کے کلام کی
طرح تھی جس کے بارے میں کسی نے کہا تھا کہ موصوف کا کلام غلطیوں اور لطف
دونوں سے پاک ہے ! بشارت کی ٹریجیڈی شاعروں، آرٹسوں اور افسانہ نویسوں سے
کہیں زیادہ گھور گھمبیر تھی۔ اس لئے کہ دُکھیا کے اعصاب پر ہمیشہ کوئی نہ
کوئی سوار رہا۔ سوائے عورت کے۔ اس دور میں جسے ناحق جوانی دیوانی سے تعبیر
کیا جاتا ہے۔، ان کے اعصاب پر بالترتیب مُلا، ناصح بزرگ، ماسٹر فاخر حسین،
مولوی مظفر، داغ دہلوی، سیگل اور خُسر بزرگوار سوار رہے۔ خدا خدا کر کے وہ
اسی ترتیب سے اُن پر سے اُترے تو گھوڑا سوار ہو گیا، جس کا قصہ ہم " اسکول
ماسٹر کا خواب " میں بیان کر چکے ہیں۔ وہ سبز قدم ان کے خواب، ذہنی سکون
اور گھریلو بجٹ پر جھاڑو پھیر گیا۔ روز روز کے چالان، جرمانے اور رشوت سے
وہ اتنے عاجز آ چکے تھے کہ اکثر کہتے تھے کہ اگر مجھے چوائس دی جائے کہ تم
گھوڑا بننا پسند کرو گے یا اس کا مالک یا اس کا کوچوان تو میں بغیر کسی
ہچکچاہٹ کے SPCA کا انسپکٹر بننا پسند کروں گا جو اُن تینوں کا چالان کرتا
ہے۔
سنگین غلطی
کرنے کے بعد پس بینی hindsight کا مظاہرہ کرنے والوں کی طرح اس
کابلی والا ( برصغیر کی تقسیم سے قبل تقریباً ہر بڑے شہر میں سُود پر قرضہ
دینے والے افغانی بکثرت نظر آتے تھے۔ اُن کی شرحِ سُود بالعموم سو فی صد
سے بھی زیادہ ہوتی تھی۔ اور وصولی کے طریقے اُس سے بھی زیادہ ظالمانہ۔ قرض
لینے والے عموماً غریب غُربا اور نوکری پیشہ لوگ ہوتے تھے۔ جس نے اُن سے
ایک دفعہ قرض لیا، وہ تا دمِ مرگ سُود ہی ادا کرتا رہتا تھا۔ اور تا دمِ
مرگ زراصِل اور خان صاحب سر پر جُوں کے تُوں کھڑے رہتے تھے۔ بنگال اور بعض
دوسرے علاقوں میں بھی، بیاج پر روپیہ چلانے والے افغانیوں کو کابلی والا
کہتے تھے۔ ٹیگور نے اسی عنوان سے ایک خوبصورت کہانی لکھی ہے، جس کا ہمارے
قضئے نما قصّے سے کوئی تعلق نہیں۔
اس زمانے میں چوائس کی بہت بات کرتے تھے۔ مگر چوائس ہے کہاں ؟ مہاتما بدھ
نے تو دو ٹوک بات کہہ دی کہ اگر چوائس دی جاتی تو وہ پیدا ہونے سے ہی
انکار کر دیتے۔ لیکن ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ گھوڑے کو اگر چوائس دی
جائے تو وہ اگلے جنم میں بھی گھوڑا ہی بننا پسند کرے گا۔ مہاتما بدھ بننا
ہرگز پسند نہیں کرے گا، کیونکہ وہ گھوڑیوں کے ساتھ ایسا سلوک روا نہیں رکھ
سکتا جیسے گوتم بدھ نے یشودھرا کے ساتھ کیا۔ یعنی انہیں غافل سوتا چھوڑ کر
بیاباں کو نکل جائے یا کسی جاکی کے ساتھ بھاگ جائے۔ گھوڑا کبھی اپنے گھوڑے
پن سے شرمندہ نہیں ہو سکتا۔ نہ کبھی اس غریب کو فلک کج رفتار سے شکوہ ہو
گا۔ نہ اپنے سوارگردوں رکاب سے کوئی شکایت۔ نہ تن بہ تدبیر، بیسار جُو
ماداؤں کے ہرجائی پن کا کوئی گلہ۔ یہ تو آدمی ہی ہے جو ہر دم اپنے آدمی پن
سے نادم و نالاں رہتا ہے۔ اوراس کی فکر میں غلطاں کہ۔۔۔
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا تو میں کیا ہوتا
گھوڑا تانگا رکھنے اور اُسے ٹھکانے لگانے کے بعد بشارت میں بظاہر دو
متضاد تبدیلیاں رُو نما ہوئیں۔ پہلی تو یہ کہ گھوڑے اور اس کے دور نزدیک
کے تمام متعلقات سے ہمیشہ کے لئے نفرت ہو گئی۔ تنہا ایک لنگڑے گھوڑے نے
انہیں جتنا نقصان پہنچایا اتنا تمام ہاتھیوں نے مل کر پورس کو نہیں
پہنچایا ہو گا۔ دوسری تبدیلی یہ آئی کہ اب وہ سواری کے بغیر نہیں رہ سکتے
تھے۔ آدمی کو ایک دفعہ سواری کی عادت پڑ جائے تو پھر اپنی ٹانگوں سے ان کا
فطری کام لینے میں توہین کے علاوہ نقاہت بھی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ان کی
لکڑی کی بزنس اب کافی پھیل گئی تھی جسے وہ کبھی اپنی دوڑ دھوپ کا پھل اور
کبھی اپنے والدِ بزرگوار کی جوتیوں کا طفیل بتاتے تھے، جبکہ خود والدَ
بزرگوار اسے بھاگوان گھوڑے کے قدموں کی برکت پر محمول کرتے تھے۔ بہر صورت،
قابلَ غور بات یہ تھی کہ ان کی ترقی کا محرک اور سبب کبھی پیروں اور
جوتیوں کی سطح سے اُوپر نہیں گیا۔ کسی نے بلکہ خود انہوں نے بھی ذہانت اور
فراست کو اس کا کریڈٹ نہیں دیا۔ لکڑی کی بِکری بڑھی تو دفتروں کے چکر بھی
بڑھے۔ اسی قدر سواری کی ضرورت میں اضافہ ہوا۔ اس زمانے میں کمپنیوں میں
رشوت نہیں چلتی تھی۔ لہذا کام نکالنے کہیں زیادہ ذلت و خواری ہوتی تھی۔
ہمارے ہاں ایماندار افسر کے ساتھ مصیبت یہ ہے کہ جب تک بے جا سختی، خوردہ
گیری اور اڑیل اور سڑیل پن سے سب کو اپنی ایمان داری سے عاجز نہ کر دے، وہ
اپنی ملازمت کو پکا اور خود کو محفوظ نہیں سمجھتا۔ بے ایمان افسر سے بزنس
مین بآسانی نمٹ لیتا ہے، ایمان دار افسر سے اسے ہول آتا ہے۔ چنانچہ صورت
یہ تھی کہ کمپنی سے لکڑی اور کھوکھوں کا آڈر لینے لے لئے پانچ چکر لگائیں
تو بل کی وصولی لے لئے دس چکر لگانے پڑتے تھے۔ جب سے کمپنی لیچڑ ہوئیں،
انہوں نے دس پہروں کا کرایہ اور محنت بھی لاگت میں شامل کر کے قیمتیں بڑھا
دیں۔ ادھر کمپنیوں نے ان کی نئی قیمتوں کو لٹس قرار دے کر دس فیصد کٹوتی
شروع کر دی۔ بات وہیں کی وہیں رہی۔ فرق صرف اتنا پڑا کہ ہر دو فریق ایک
دوسرے کو لالچی، کائیاں اور چور سمجھ کر لین دین کرنے لگے۔ اور یہ چوکس
اور کامیاب بزنس مین کا بنیادی اُصول ہے۔
اب بغیر سواری کے گذر نہیں ہو سکتی تھی۔ لیکن یہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا
کہ کون سی سواری موزوں رہے گی۔ ٹیکسی ابھی عام نہیں ہوئی تھی۔ اُس زمانے
میں ٹیکسی صرف خاص خاص موقعوں پر استعمال ہوتی تھی۔ مثلاً ہارٹ اٹیک کے
مریض کو اسپتال لے جانے، اغوا کرنے، ڈاکہ ڈالنے اور پولیس والوں کو لفٹ
دینے کے لیئے۔ اور یہ جو ہم نے کہا کہ مریض کو ٹیکسی میں ڈال کر اسپتال لے
جاتے تھے۔ تو فقط یہ معلوم کرنے لے لئے جاتے تھے کہ زندہ ہے کہ مر گیا
کیونکہ اُس زمانے میں بھی جناح اور سول اسپتال میں اُنہی مریضوں کا داخلہ
ملتا تھا جو پہلے اسی ہسپتال کی کسی ڈاکٹر کے پرائیویٹ کلینک میں
Preparatory ( ابتدائی ) علاج کروا کر اپنی حالت اتنی غیر کر لیں کہ اسی
ڈاکٹر کے توسط سے اسپتال میں آخری منزل آسان کرنے کے لئے داخلہ مل سکے۔ ہم
اسپتال میں مرنے کے خلاف نہیں۔ ویسے تو مرنے کے لئے کوئی بھی جگہ نا موزوں
نہیں، لیکن پرائیویٹ اسپتال اور کیلنک میں مرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے
کہ مرحوم کی جائیداد، جمع جتھا اور بیکن بیلنس کے بٹوارے پر پسماندگان کے
درمیان خون خرابا نہیں ہوتا۔ کیوں کہ وہ سب ڈاکٹروں کے حصے میں آ جاتے
ہیں۔ افسوس ! شاہ جہاں کے عہد میں پرائیوٹ اسپتال نہ تھے۔ وہ ان میں داخلہ
لے لیتا تو قلعہِ آگرہ میں اتنی مدّت تک اسیر رہنے اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر
جینے سے صاف بچ جاتا۔ اور اس کے چاروں بیٹے تخت نیشنی کی جنگ میں ایک
دوسرے کا سر قلم کرنے کے جتن میں سارے ہندوستان میں آنکھ مچولی کھیلتے نہ
پھرتے۔ کیونکہ فساد کی جڑ یعنی سلطنت و خزانہ تو بلوں کی ادائیگی میں
نہایت پُر امن طریقے سے جائز وارثوں یعنی ڈاکٹروں کو منتقل ہو جاتا۔ بلکہ
انتقالِ اقتدار کے لئے فرسودہ ایشیائی رسم یعنی بادشاہ کے بھی انتقال کی
بھی ضرورت نہیں رہتی۔ اس لئے جیتے جی تو ہر حکمران انتقالِ اقتدار کو اپنا
ذاتی انتقال سمجھتا ہے۔
٭٭٭