صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
بچّوں کے بابا بُلّہے شاہ
شکیل الرّحمٰن
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
کچھ دُور سے یہ آواز آ رہی تھی، سُریلی آواز میں کوئی گا رہا تھا:
اِس دھرتی پر تیری سکندری
اِس دھرتی پر تیری سکندری
آواز آہستہ نزدیک آ گئی، گاؤں کے بچیّ سمجھ گئے کہ کون گاتا آ رہا
ہے۔ بڑے، بوڑھے، جوان، عورت سب سمجھ گئے کہ یہ بابا بُلّہے شاہ کی آواز
ہے۔ وہ مہینے میں ایک دوبار یہی گاتے ہوئے اس گاؤں کی طرف آتے ہیں۔ سب سے
باتیں کرتے ہیں، ا چھی ا چھی باتیں بتاتے ہیں۔ بچوں سے اُنھیں بے حد پیار
ہے اس لیے گاؤں کے چوپال میں بیٹھ کر دیر تک بچوں سے باتیں کرتے ہیں۔ ’’اس
دھرتی پر تیری سکندری‘‘ کی آواز سن کر گاؤں کے چھوٹے بڑے سب چوپال کی جانب
دوڑ پڑتے اور جب بابا بُلّہے شاہ اپنی سُریلی پیاری آواز میں گاتے ہوئے
نزدیک آ جاتے تو سب اُنھیں جھُک کر سلام کرتے، وہ مسکراتے، دعائیں دیتے،
چوپال کے چبوترے پر بیٹھ جاتے۔
بابا کے آتے ہی سب نے جھک کر سلام کیا اور اُنھیں چوپال کے چبوترے
تک لے آئے۔ جب بابا بُلّہے شاہ چبوترے پر بیٹھ گئے تو گاؤں والے بھی جو
وہاں جمع تھے بیٹھ گئے۔ بابا نے گاؤں والوں کی خیریت دریافت کی، خوش ہوئے
کہ سب ٹھیک ٹھاک ہے۔
ابھی وہ اپنی بات شروع کرنے والے تھے کہ ایک نوجوان نے کھڑے ہو کر بابا بُلّہے شاہ سے سوال کیا:
’’بابا، آپ جو یہ گاتے ہیں ’اس دھرتی پر تیری سکندری، اس دھرتی پر تیری سکندری‘ اس کا مطلب کیا ہے؟‘‘
بابا خوش ہوئے، بولے:
’’بیٹے، تمھارا سوال بہت ا چھا لگا، میرے اس گیت کو سب سنتے ہیں لیکن ابھی تک کسی نے اس کا مطلب پوچھا نہ تھا۔‘‘
جس نوجوان نے سوال کیا تھا اس سے کہا: ’’بیٹے بیٹھ جاؤ، ابھی اس گیت کا مطلب سمجھاتا ہوں۔‘‘
چند لمحے خاموش رہے، پھر گانے لگے:
یہی تیری اوسر یہی تیری بار
اس دھرتی پر تیری سکندری
٭٭٭