صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
بلند و بالا عمارتیں۔قیامت کی علامتیں
مفتی ناصر الدین مظاہری
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
مسجد کے پاس دوسری مسجد
اگر کسی جگہ مسجد پہلے سے موجود ہے اور وہ مصلیوں کے لئے کافی ہے تو اس سے قریب دوسری مسجد تعمیر کرنا جائز اور درست نہیں ہے۔
امداد الفتاویٰ کے حاشیہ میں یہ عبارت مرقوم ہے کہ
’’اگر دوسری مسجد قریب ہو تو اور مسجد بنانا جائز نہیں ہے اس لئے کہ اس سے پہلی مسجد کی اضاعت لازم آتی ہے، لیکن اگر بن جاوے تو اس کا منہدم کرنا اور بے ادبی کرنا جائز نہیں اور ایسی مسجد کی مثال ایسی ہے جیسے مغصوب کاغذ پر اگر قرآن لکھا جا وے تو نہ اس کی بے ادبی درست ہے نہ اس میں تلاوت درست ہے’‘ (حاشیہ امداد الفتاویٰ ۲/۶۶۸)
مفتی ظفیر الدین صاحب مفتاحی مدظلہ تحریر فرماتے ہیں
’’ایک محلہ میں متعدد مسجدیں بنانا کسی حال میں ضرر سے خالی نہیں، یہ دوسری بات ہے کہ محلہ کی آبادی اتنی دور میں پھیلی ہوئی ہو کہ دوسرے کنارے کے لوگ نہ پہنچ سکیں ورنہ پھر احتیاط اسی میں ہے کہ ایک محلہ میں ایک سے زائد مسجد نہ ہو، یا چند بھی ہوں تو اس طرح کہ نزدیک نزدیک نہ ہوں، جس سے ایک جماعت میں انتشار پیدا ہو جائے۔
ایک مسجد کے ہوتے ہوئے اس کی بغل میں دوسری مسجد اس وقت تک نہیں بنائی جا سکتی جب تک کوئی شرعی مجبوری درپیش نہ آئے مثلاً یہ کہ پہلی مسجد تنگ ہو جائے، اس کو وسعت دینے کی گنجائش نہ ہو، یا ایک مسجد میں اجتماع سے کسی فتنہ کا اندیشہ ہو، بغیر کسی ایسی شرعی مجبوری کے دو مسجدیں بنا کر انتشار و تشتت پیدا کرنا اس اجتماعی نظام کے سراسر خلاف ہے کہ اس سے شیرازۂ دینی بکھر جائے گا، عبادات کا عروۃ الوثقیٰ مضمحل ہو جائے گا اور مسجد کی رونق جاتی رہے گی۔ (اسلام کا نظام مساجد ص ۱۵۹)
٭٭٭