صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


داستان خواجہ بخارا کی

لیونید سولوویف

روسی سے ترجمہ: حبیب الرحمن

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

(۲)

انھوں نے سوداگروں کے ایک بڑے کارواں کے ساتھ جس میں وہ شامل ہو گئے تھے بخارا کی سرحد میں قدم رکھا اور سفر کے آٹھویں دن بہت دور سامنے دھندلکے میں اس بڑے اور مشہور شہر کے جانے پہچانے مینار دیکھے۔


پیاس اور گرمی سے پریشان ساربانوں نے ایک زور دار نعرہ بلند کیا اور اونٹوں نے اپنی رفتار تیز کر دی۔ سورج غروب ہو رہا تھا اور جلدی کی ضرورت تھی تاکہ پھاٹک بند ہونے سے پہلے بخارا میں داخل ہوا جاسکے۔ خواجہ نصرالدین کارواں میں سب سے پیچھے، گرد کے گھنے اور بھاری بادل میں لپٹے چل رہے تھے۔ یہ تو ان کی اپنی پاک گرد تھی جس کی مہک دوسرے دور دراز ملکوں کی گرد سے کہیں اچھی تھی۔ چھینکتے کھانستے ہوئے وہ اپنے گدھے سے برابر کہہ رہے تھے:


"دیکھ، ہم آخر کار گھر پہنچ گئے نا! خدا کی قسم یہاں کامیابیاں اور مسرتیں ہماری منتظر ہیں۔"


کارواں ٹھیک اس وقت شہر کی فصیل کے قریب پہنچا جب پہرے دار پھاٹک بند کر رہے تھے۔ "خدا کے لئے ٹھہریے!" ۔ کارواں کا سردار ایک طلائی سکہ دکھا کر دور ہی سے چلایا۔ لیکن پھاٹک بند ہوچکے تھے، زنجیریں جھنکار کے ساتھ چڑھا دی گئیں اور میناروں پر نگہبانوں نے توپوں کے مورچے سنبھال لئے۔ تازہ ہوا کے جھونکے آنے لگے، دھندلکے آسمان میں گلابی شفق مرجھا گئی، باریک ہلال بہت صاف ابھر آیا اور شام کی خاموشی میں بےشمار میناروں سے مؤذنوں کی تیز اور پرسوز آوازیں مومنوں کو مغرب کی نماز کی دعوت دینے لگیں۔


سوداگر اور ساربان نماز کے لئے جھک گئے اور خواجہ نصرالدین چپکے سے اپنے گدھے کو لیکر ایک کنارے چلے گئے۔


" یہ سوداگر تو بجا طور پر خدا کے شکرگزار ہیں" انھوں نے کہا "انھوں نے آج دن میں ڈٹ کر کھانا کھایا ہے اور رات کو بھی کھائیں گے لیکن میں نے اور تو نے، میرے وفادار گدھے، نہ تو دن کو کھانا کھایا ہے اور نہ رات ہی کو کھائیں گے۔ اگر اللہ ہمارے شکرئے کا خواھاں ہے تو وہ مجھ کو ایک قاب پلاؤ اور تجھ کو ایک گھٹا گھاس بھیج دے۔"


انھوں نے سڑک کے کنارے ایک درخت سے گدھے کو باندھ دیا اور خود بھی اس کے برابر ننگی زمین پر پتھر کا تکیہ بنا کر لیٹ گئے۔ آسمان کی اندھیری وسعتوں میں جھانکے ہوئے انھوں نے ستاروں کا جھلملاتا ہوا جال دیکھا۔ وہ ستاروں کے ہر جھرمٹ سے بخوبی واقف تھے۔ ان دس برسوں میں انھوں نے نہ جانے کتنی بار کھلے آسمان کو دیکھا تھا! ان کو ہمیشہ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے خاموش غور و فکر کے ان دانش مندانہ خیالات نے ان کو امیروں سے بھی زیادہ امیر بنا دیا ہے۔ چاہے امیر آدمی سونے کے ظروف میں ہی کھانا کیوں نہ کھاتاھو پھر بھی وہ لازمی طور پر رات چھت کے نیچے گذارتا ہے۔ اس لئے وہ نصف شب کے سناٹے میں خنک، نیلگوں، ستاروں سے بھرے ہوئے دھندلکے کے درمیان زمین کی پرواز سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔


اس دوران میں شہر کی دندانے دار فصیل کے باہر کارواں سرایوں اور چائے خانوں میں بڑے برے کڑاھوں کے نیچے آگ روشن ہو چکی تھی اور بھیڑیں جو ذبح ہونے کے لئے کھینچی جا رہی تھیں بے حد غم آلود آواز میں ممیا رہی تھیں۔ تجربے کار خواجہ نصرالدین نے پہلے ہی سے سوچکر اپنے رات کے آرام کا انتظام ایسی جگہ کیا تھا جو ہوا کے رخ کے خلاف تھی تاکہ کھانے کی اشتھا آمیز خوشبو ان کو نہ چھیڑ سکے۔ بخارا کے قوانین کو اچھی طرح جانتے ہوئے انہوں اپنی تھوڑی سی جمع پونجی بچالی تھی تاکہ کل وہ شہر کے پھاٹک پر محصول ادا کر سکیں۔


کافی دیر تک وہ کروٹیں بدلتے تھے لیکن ان کو نیند نہ آئی۔ اس بے خوابی کا سبب بھوک نہ تھی بلکہ تلخ خیالات تھے جو ان کو بےچین اور پریشان کر رہے تھے۔


ان کو اپنے وطن سے محبت تھی۔ وہ اس کو سب سے زیادہ پیار کرتے تھے۔ یہ سانولے تپے ہوئے چہرے پر سیاہ داڑھی رکھنے والاچالاک اور زندہ دل انسان جس کی صاف آنکھوں سے شرارت کی جھلک تھی، اپنی پھٹی پرانی قبا، داغ دھبوں سے بھری ٹوپی اور خستہ حال جوتے پہنے بخارا سے جتنا ہی زیادہ دور آوارہ گردی کرتا رہا اتنا ہی زیادہ وطن سے اس کا  پیار بڑھتا چلا گیا اور وطن اس کو یاد آتا گیا۔ جلا وطنی کے زمانے میں اس کو ان تنگ سڑکوں کی یاد آتی جہاں دونوں طرف کی کچی دیواروں سے رگڑ کھائے بغیر ارابے نہیں گزر سکتے تھے، ان بلند میناروں کی جن کی روغن کی ہوئی اینٹوں کی ڈیزائن دار چوٹیاں طلوع و غروب آفتاب کے وقت عکس سے شعلہ ور ہو جاتی تھیں اور ان قدیم اور متبرک چنار کے درختوں کی جن کی شاخوں میں سارسوں کے بڑے بڑے کالے گھونسلے جھولتے تھے۔ اس کو حور کے سرسراتے ہوئے درختوں کے سائے میں نہروں کے کنارے چہل پہل والے چائے خانوے، بہت زیادہ گرم باورچی خانوں میں دھوئیں اور کھانے کی خوشبو اور بازاروں کی رنگین گہما گہمی یاد آتی۔ اس کو اپنے وطن کی پہاڑیاں اور جھرنے، گاؤں، کھیت، چراگاھیں، ریگستان ایک ایک یاد آتئے اور بغداد یا دمشق میں جب وہ اپنے کسی ہم وطن کو دیکھتا تو وہ اس کی ٹوپی یا لباس کی وضع قطع سے پہچان لیتا اور ایک لمحہ کے لئے خواجہ نصرالدین کے دل کی دھڑکن اور سانس کی آمد رفت رک جاتی۔


واپسی پر خواجہ نے اپنے ملک کو اس سے زیادہ بدحال پایا جیسا کہ چھوڑا تھا۔ بڈھّے امیر کا زمانہ ہوئے انتقال ہو چکا تھا۔ پچھلے آٹھ سالوں میں نئے امیر نے بخارا کو تقریبا تباہ کر دیا تھا۔ خواجہ نصرالدین نے ٹوٹے پھوٹے پل، سورج سے جھلسی، بری طرح سے بوئی ہوئی گیہوں اور جو کی کمزور فصلیں اور آبپاشی کی خشک نالیاں دیکھیں جو گرمی سی سوکھ کر چٹخ گئی تھیں۔ کھیتوں میں جھاڑ جھنکار اگے تھے اور ویران تھے، پانی کی کمیابی سے باغات خشک پڑے تھے، کسانوں کے پاس نہ تو اناج تھا اور نہ مویشی، سڑکوں پر فقیروں کی قطاریں ان لوگوں سے بھیک مانگتی نظر آتی تھیں جو خود انہی کی طرح محتاج تھے۔


نئے امیر نے ہر گاؤں میں سپاھیوں کا ایک ایک دستہ تعینات کر دیا تھا اور حکم دیا تھا کہ اس کے مفت کھانے پینے کی ذمہ داری گاؤں والوں پر ہے۔ اس نے بہت سی مسجدوں کی بنیاد ڈلوا دی اور پھر حکم دیا کہ عام لوگ ان کو تکمیل تک پہنچائیں۔ نیا امیر بہت زاھدو پاکباز تھا اور سال میں دو بار انتھائی مقدس اور پاکیزہ بزرگ شیخ بہاالدین کے مزار کی زیارت میں ناغہ نہیں کرتا تھا جو بخارا کے قریب ہی تھا۔ چار رائچ ٹیکسوں میں اس نے تین اور محصولوں کا اضافہ کیا تھا۔ اس نے ہر پل پر چنگی ناکہ بنوا دیا تھا، تجارتی اور قانونی کاروائیوں کے لئے ٹیکس پر اضافہ کر دیا تھا اور گھٹیا سکے بنوائے تھے۔۔۔ حرفتیں تباہ ہو رہی تھیں اور تجارت پر زوال آیا ہوا تھا۔ خواجہ نصرالدین کے لئے اپنے پیار وطن کو واپسی خوش کن نہ تھی۔


 صبح سویرے مؤذنوں کی اذان پھر تمام میناروں سے گونجی۔ پھاٹک کھل گئے اور کارواں گھنٹیوں کی گونج میں آھستہ آھستہ شہر میں داخل ہوا۔


پھاٹک سے گذر کر کارواں ٹھہر گیا۔ سڑک کو پہرے داروں نے روک رکھا تھا۔ وہ بڑی تعدادمیں تھے۔ کچھ تو اچھے کپڑے اور جوتے پہنے تھے اور کچھ جن کو ابھی تک امیر کی ملازمت میں موٹے ہونے کا موقع نہیں ملا تھا ننگے پیر اور نیم عریاں تھے۔ وہ شور مچا کر ایک دوسرے کو ڈھکیل رہے تھے اور لوٹ مار کی تقسیم کے لئے پہلے سے جھگڑنے لگے تھے۔ آخرکار ٹیکس کلکٹر صاحب ایک چائے خانے سے برآمد ہوئے، لحیم شحیم، چہرے پر نیند کے آثار، ریشمی قبا پہنے جس کی آستیوں پر چکنئی کے داغ تھے، ننگے پیر سلیپروں میں ڈال لئے تھے۔ پھولا ہوا چہرہ بداعتدالیوں اور بدکاریوں کی چغلی کھا رہا تھا۔ اس نے سوداگروں پر للچائی ہوئی نگہ ڈالی اور بولا:


"خوش آمدید، سوداگرو! اللہ آپ کو کاروبار میں کامیاب کرے! یہ جان لیجئے کہ امیر کا حکم ہے کہ اگر کوئی بھی اپنے سامان کی چھوٹی سی چیز بھی چھپائے گا تو اس کو ڈنڈوں سے مار مار کر ہلاک کر دیا جائے گا۔"


حیران و پریشان سوداگروں نے خاموشی سے اپنی خضاب لگی ہوئی داڑھیوں کو سہلایا۔ ٹیکس کلکٹر پہرے دواروں کی طرف مڑا جو بے چین ہو رہے تھے اور اپنی موٹی انگلیوں سے اشارہ کیا۔ اشارہ پاتے ہی پہرے دار ہانکتے پکارتے اونٹوں پر ٹوٹ پڑے۔ بھیڑ بھاڑ اور عجلت میں ایک دوسرے سے دھکم دھکا کرکے انھوں نے اپنی تلواروں سے بالوں کے رسے کاٹ دئے اور شور مچاتے ہوئے گانٹھوں کو کاٹ کر کھول دیا۔ سڑک پر زربفت، ریشم اور مخمل کے کپڑے، مرچ، چا، عنبر کے باکس، گلاب کے قیمتی عطر کے کنٹر اور تبت کی دوائیں پھیل گئیں۔


خوف نے سوداگروں کی زبان میں قفل لگا دیا تھا۔ دو منٹ میں معائنہ ختم ہو گیا۔ پہرے دار اپنے افسر کے پیچھے صف آرا ہو گئے، ان کی قبائیں پھولی ہوئی تھیں۔ اب سامان اور شہر کے اندر داخل ہونے کی اجازت کے لئے ٹیکس وصول کیا جانے لگا۔ خواجہ نصرالدین کے پاس کوئی تجارتی سامان نہ تھا اور ان کو صرف داخلے کا ٹیکس ادا کرنا تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول