صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


اپنی برہنہ پائی پر

زمانی اعتبار سے ۱۹۷۶ء  تا ۲۰۰۷ء تک کی غزلیں

اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                        ٹیکسٹ فائل

غزلیں



تیرے دامن کی تھی ۔ یا مست ہوا کس کی تھی
ساتھ میرے چلی آتی وہ صدا کس کی تھی
کون مجرم ہے کہ دوری ہے وہی پہلی سی
پاس آ کر چلے جانے کی ادا کس کی تھی
دل تو سلگا تھا مگر آنکھوں میں آنسو کیوں آۓ
مل گئی کس کو سزا اور خطا کس کی تھی
شام آتے ہی اتر آۓ مرے گاؤں میں رنگ
جس کے یہ رنگ تھے ، جانے وہ قبا کس کی تھی
یہ مرا دل ہے کہ آنکھیں ، کہ ستاروں کی طرح
 جلنے بجھنے کی سحر تک، یہ ادا کس کی تھی
چاندنی رات گھنے نیم تلے کوئی نہ تھا
پھر فضاؤں میں وہ خوشبوۓ حنا کس  کی تھی

***

تجھ چشم نمی گواہ رہیو
مجھ دل کی لگی گواہ رہیو
اُن آنکھوں کی سازشیں عجب ہیں
اے سادہ دلی ۔ گواہ رہیو
آنکھیں بھی ہیں خشک ، چپ بھی ہوں میں
شائستہ لبی ، گواہ رہیو
مجھ لب پہ نہ اس کا نام آیا
اے نزع دمی ، گواہ رہیو
ٹھہروں بھی تو کیا زمیں رکے گی؟
پیہم سفری ، گواہ رہیو
تم بِن نہ کبھی قرار آیا
بستر شکنی ، گواہ رہیو
اوروں سا تمہیں بھی میں نے چاہا
تم خود بھی کبھی گواہ رہیو

***



مجھے چاہے جتنا رلائے تو ۔ تجھے دیکھ کر میں ہنساکروں
میں نبی ہوں مذہبِ عشق کا، ترے حق میں صرف دعا کروں
ترا نام دن کے نصاب میں، ترا نام رات کے خواب میں
ترا نام لوں تو میں سو سکوں، ترا نام لے کے جگا کروں
تیرا ایک چھوٹا سا پیار بھی مرا مایہ ہے مرا جام جم
تجھے سامنے جو نہ پاؤں میں تو اسی میں تجھ کو تکا کروں
ترا سرخ و سرمئی پیرہن مرے دل کی آنکھ میں سج گیا
میں بھی زخمِ دل کی قبا پہن، تری یاد بن کے سجا کروں
یہ مرا فلم مرے ہاتھ ہیں، تو نہیں تو یہ مرے ساتھ ہیں
انہیں اپنے ہونٹوں سے چوم کر تجھے روز چٹھی لکھا کروں
میں نہتّا ۔ بے سپر ۔ اسلحہ مرا صرف جلنے کی آرزو
میں چراغِ شب ہوں عجیب شے کہ غنیمِ شب سے لڑا کروں
زرِ ارض کے لیے دشت و در، سبھی چھان دیکھے، کمایا زر
یہ غزل ہے مفت کا اک ہنر کبھی یہ بھی کام کیا کروں

٭٭٭٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول