صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


بِساطِ ہوش

فوقؔ کریمی

غزلیں

لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                      ٹیکسٹ فائل

غزلیں

چشمِ بینا کی ضرورت ہے پرکھنے کے لئے

عمر درکار ہے انساں کو سمجھنے کے لئے


کاش ہو جائے گزر بادِ صبا کا اُن تک

وہ جو کلیاں ہیں چمن میں ابھی کھلنے کے لئے


جان قربان تو پروانے نے کر دی لیکن

رہ گئی شمع مگر رات میں جلنے کے لئے


دیکھ لو صاف نہیں ہے ابھی مطلع شاید

ہے ابھی اور گھٹا کوئی برسنے کے لئے


حوصلہ جیسے بھی چاہیں وہ نکالیں اپنا

یہ جو دو چار ابھی ناگ ہیں ڈسنے کے لئے


آپ دیوانہ سمجھتے ہیں تو سمجھیں لیکن

میں تو خود ٹھوکریں کھاتا ہوں سنبھلنے کے لئے


جانے کب تک تمہیں اِس دہر میں رونا ہوگا

’’اور ہنس لو ابھی کچھ وقت ہے ہنسنے کے لئے‘‘


کوئی قاتل کوئی ظالم کوئی حاسد ہے یہاں

کس سے آمادہ رہوں فوقؔ میں لڑنے کے لئے

٭٭٭


اُنہیں یاد جب اُن کے وعدے دلائے

جبیں پر ستارے سے کچھ جھلملائے


یکایک مرے سامنے جب وہ آئے

نظر جھک گئی اور قدم ڈگمگائے


تصوّر میں غلطاں خیالوں میں پنہاں

’’کہاں تک کوئی اُن سے دامن بچائے‘‘


کیا ہے ترے غم کا یوں خیر مقدم

مسرّت میں جیسے کوئی مسکرائے


اُنہیں مدعائے غمِ دل سناکر

مصیبت خریدی ہے بیٹھے بٹھائے


ملے بارہا اُن سے اے فوقؔ یوں تو

مگر آج تک راز اُن کے نہ پائے

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں   

   ورڈ فائل                                                                      ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول