صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
اے بہارِ باغِ زہرا بلگرامی یاسمن
ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
کشورِ ہندوستان میں اسلام و ایمان، علم و فضل اور شعر و ادب کی ترویج و بقا میں صوبۂ اتر پردیش بڑا ہی زرخیز واقع ہوا ہے۔ اس صوبے کی علمی خدمات اظہر من الشمس ہیں۔ یہاں سے علوم و فنون کی وہ ندیاں رواں دواں ہوئیں کہ گلشنِ معرفت و روحانیت آج تک سر سبز و شاداب ہے، اس خطے کو شیرازِ ہند بھی کہا جاتا ہے۔ ریاستِ اتر پردیش کے مختلف اضلاع اور شہروں میں بڑے بڑے علما و صلحا، فقہا و صوفیہ اور مشائخِ عظام نے اپنا مسکن بنا کر تزکیۂ باطن اور اصلاح و تذکیر کے کارہائے نمایاں انجام دیے۔ جون پور، لکھنؤ، الٰہ آباد، چریاکوٹ، کاکوری، سندیلہ، موہان، خیرآباد، بریلی، مبارک پور، کچھوچھہ، لاہر پور، بلگرام وغیرہ نہ جانے ایسے کتنے شہر ہیں جہاں علوم و فنون میں یگانہ، درس و تدریس میں مشّاق، شعر و ادب میں ممتاز اور تصنیف و تالیف میں منفرد ہستیاں جلوہ گر ہوئیں اور ان کی علمی یادگاریں آج بھی اہلِ علم و دانش اور تشنگانِ علم و فن کو سیراب کر رہی ہیں۔
بلگرام اسی ریاست کے ضلع ہردوئی کی بہ ظاہر ایک چھوٹی سی بستی کا نام ہے۔ مگر اس کی شہرت اکنافِ عالم میں پھیلی ہوئی ہے۔ یہ بستی دینی و علمی، روحانی و عرفانی، شعری و ادبی اور جغرافیائی لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے۔ بادشاہ شمس الدین التمش کے دورِ حکومت میں مسلمانوں کے قدم اس سرزمین پر پہنچے اور یہاں اسلامی شان و شوکت اور تہذیب و تمدن کا چرچا ہوا۔ ساتویں صدی ہجری میں یہاں قدم رنجہ فرمانے والے مسلمانوں میں ساداتِ زیدیہ کا بھی ایک خاندان تھا۔ جس میں جید علما، اولیا، صوفیہ، شعرا، ادبا، حکما اور فقہا گذرے ہیں۔ جنھوں نے بلگرام شریف کی سرزمین کوایسا تقدس عطا کیا کہ یہ اسلامی علوم و فنون کا گنجینہ، تزکیۂ نفس و طہارتِ قلبی کا مرکز، شعر و ادب اور علم و فن کا گہوارہ بن گئی۔
فاتح بلگرام حضرت سید محمد صغرا نور اللہ مرقدہٗ (م ۶۲۷ھ) نے اس شہر کو فتح کیا اور یہیں فروکش ہو گئے۔ بلگرام کی فتح، اس کے تاریخی پس منظر، جغرافیائی محل وقوع اور بلگرام کی وجہِ تسمیہ کو سمجھنے کے لیے اس مقام پر ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ مشہور ادیب و شاعر شرفِ ملت حضرت سید محمد اشرف میاں قادری برکاتی (انکم ٹیکس کمشنر، دہلی) کی عبارتِ ذیل کو پیش کرنا غیر مناسب نہ ہو گا۔ موصوف اپنی کتاب ’’یادِ حسنؔ‘‘ میں رقم طراز ہیں :
’’بلگرام ہندوستان کے صوبۂ اودھ کا مشہور و معروف مردم خیز قصبہ ہے۔ آج کل ہردوئی کے توابع میں ہے۔ اس کا طول البلد ایک سو سولہ درجے اور پندرہ دقیقے اور عرض البلد چھبیس درجے پچپن دقیقے، سمتِ قبلہ پچپن دقیقے، مغرب سے شمال کی جانب مسافتِ بلگرام اور مکۂ مکرمہ کے درمیان پینتیس درجے ترپن دقیقے اور فرسخوں کے اعتبار سے فاصلۂ بلگرام اور بلدالحرام کے درمیان سات سو نواسی فرسخ ہے۔ اس کا نام پہلے وہاں کے راجا کے نام پر سری نگر تھا۔ حضرت شاہ حمزہ صاحب ’’فص الکلمات‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اس وقت تک بھی یہ نام عوام اور ہندوؤں کی زبان پر جاری تھا۔ حضرت جدی صاحب البرکات قدس سرہٗ نے بھی اپنے ہندی دوہے میں فرمایا ہے ؎
٭٭٭