صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
بدعت حسنہ وسیئہ کی تقسیم
عبد الہادی عبد الخالق مدنی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
بدعت حسنہ اور بدعت سئیہ
سب سے پہلے یہ حدیث مبارک ملاحظہ فرمائیے، اور بدعتِ حسنہ کے فلسفہ پر غور فرمائیے :
عن أنس عن النبي صلی اللہ علیہ آلہ وسلم قال ( إنِی فَرطُکُم عَلیٰ الحَوضِ مَن مَرَّ عليَّ شَرِبَ و مَن شَرِبَ لم یَظمَاء ُ أبداً لَیَرِدُنّ عَليّ أقواماً أعرِفُھُم و یَعرِفُونِي ثُمَّ یُحَالُ بینی و بینَھُم فأقولُ إِنَّھُم مِنی، فَیُقال، إِنکَ لا تدری ما أحدَثُوا بَعدَکَ، قَأقُولُ سُحقاً سُحقاً لَمِن غَیَّرَ بَعدِی ) و قال ابن عباس سُحقاً بُعداً سُحیقٌ بَعِیدٌ سُحقۃً، و أسحقہُ أبعَدُہُ۔ ۔ ( میں تم لوگوں سے پہلے حوض پر ہوں گا جو میرے پاس آئے گا وہ ( اُس حوض میں سے ) پیئے گا اور جو پیئے گا اُسے ( پھر ) کبھی پیاس نہیں لگے گی، میرے پاس حوض پر کچھ لوگ آئیں گے یہاں تک میں اُنہیں پہچان لوں گا اور وہ مجھے پہچان لیں گے ( کہ یہ میرے اُمتی ہیں اور میں اُن کا رسول ہوں)، پھر اُن کے اور میرے درمیان (کچھ پردہ وغیرہ)حائل کر دیا جائے گا، اور میں کہوں گا یہ مجھ میں سے ہیں ( یعنی میرے اُمتی ہیں، جیسا کہ صحیح مُسلم کی روایت میں ہے )، تو ( اللہ تعالیٰ ) کہے گا آپ نہیں جانتے کہ اِنہوں نے آپ کے بعد کیا نئے کام کیئے، تو میں کہوں گا دُور ہوں دُور ہوں، جِس نے میرے بعد تبدیلی کی )) اور عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا۔ ۔ سُحقاً یعنی دُور ہونا، صحیح البُخاری/حدیث ٦٥٨٣، ٦٥٨٤/ کتاب الرقاق/ باب فی الحوض، صحیح مسلم / حدیث ٢٢٩٠، ٢٢٩١ /کتاب الفضائل/باب اِثبات حوض نبیّنا صلی اللہ علیہ وسلم و صفاتہ۔
محترم قارئین، رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے اِن فرامین پر ٹھنڈے دِل سے غور فرمائیے، دیکھیئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے جو جواب دیا جائے گا اُس سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کے اعمال نہیں جانتے، اور اللہ تعالیٰ دِین میں نئے کام کرنے والوں کو حوضِ رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے ہٹوائیں گے، اچھے یا برے نئے کام کے فرق کے بغیر، اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے یہ سفارش کرنے کا ذِکر کیا کہ اچھے نئے کام یعنی "بدعتِ حسنہ "کرنے والوں کو چھوڑ دِیا جائے، ،،، غور فرمائیے، ،،، بدعت دینی اور بدعت دُنیاوی، یا یوں کہیئے، بدعتِ شرعی اور بدعتِ لغوی میں بہت فرق ہے اور اِس فرق کو سمجھنے والا کبھی"بدعتِ حسنہ اورسیئہ"کی تقسیم کو درست نہیں جانتا،
۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( مَن أحدث فی أمرنا ھذا ما لیس فیہ فھو رد۔ ۔ جِس نے ہمارے اِس کام ( یعنی دِین ) میں ایسا نیا کام بنایا جو اِس میں نہیں ہے تو وہ کام رد ہے ) صحیح البخُاری / حدیث ٢٦٩٧/کتاب الصلح /باب ٥۔
غور فرمائیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں ہر وہ کام مردود قرار دِیا گیا ہے جو دِین میں نہیں ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں۔ ۔ جو کام دِین میں سے نہیں وہ بدعت ہو سکتا ہے، اور فلان فلان کام تو دِین میں سے ہیں، اور ان کے اس فلسفے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کا یہ فرمان رد کرتا ہے کہ "جو اِس (یعنی دِین) میں نہیں ہے "، پس ایسا کوئی بھی کام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے دُنیا سے رخصت ہونے کے وقت تک دین میں نہیں تھا وہ دین نہیں ہو سکتا، اور اس کے ساتھ ساتھ ہر وہ کام جو خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین کے طرف سے جاری نہیں کیا گیا وہ بھی دینی نکتہ نظر سے قابل اتباع نہیں ہے۔
مثلاً اپنی خود ساختہ عبادات، دُعائیں، ذکر اذکار، چلہ کشیاں، اور ان کے خاص کیفیات، اوقات اور عدد وغیرہ مقرر کرنا، خصوصی یاد گیری کی محافل سجانا اور دن منانے، وغیرہ وغیرہ۔
جی ہاں یہ مذکورہ بالا کام "دِین میں سے "تو ہیں، لیکن جب یہ کام ایسے طور طریقوں پر کیے جائیں جو "دِین میں "نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مذکورہ بالا حُکم لاگو ہوتا ہے۔
بہت توجہ اور تحمل سے سمجھنے کی بات ہے کہ "دِین میں سے ہونا "اور "دِین میں ہونا "دو مختلف کیفیات ہیں، کِسی کام ( قولی و فعلی، ظاہری و باطنی، عقیدہ، اور معاملات کے نمٹانے کے احکام وغیرہ )کا دِین میں سے ہونا، یعنی اُس کام کی اصل دِین میں "جائز "ہونا ہے،
اور کِسی کام کا دِین میں ہونا، اُس کام کو کرنے کی کیفیت کا دِین میں ثابت ہونا ہے،
مَن گھڑت، خود ساختہ طریقے اور کیفیات دِین میں سے نہیں ہیں، اللہ کی عِبادت، دُعا، ذِکر و اذکار، عید، صلاۃ و سلام، یہ سب دِین میں تو ہیں، لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ "اِن کو کرنے کی کون سی کیفیت اور ہیئت دِین میں ہے ؟؟؟"
قُرآن کی آیات کی اپنی طرف سے تفسیر و شرح کرنا، ، صحیح ثابت شدہ سُنّت اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت کی موافقت کے بغیر اپنی طرف سے معنی و مفہوم نکالنا اور اُس کو بُنیاد بنا کر عِبادات و عقائد اخذ کرنے سے کوئی کام عبادت اور کوئی قول و سوچ عقیدہ نہیں بن سکتے، نہ ہی کچھ حلال و حرام کیا جا سکتا ہے، نہ ہی کچھ جائز و ناجائز کیا جا سکتا ہے، نہ ہی کسی کو کافر و مشرک و بدعتی قرار دیا جا سکتا ہے، اور نہ ہی ایسے بلا دلیل اور ذاتی آراء و فہم پر مبنی اقوال و افعال و اَفکار دِین کا جُز قرار پا سکتے ہیں، وہ یقیناً دِین میں نئی چیز ہی قرار پائیں گے، جِسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدعت قرار فرمایا ہے۔
٭٭٭