صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
عمران شاہد بھنڈر کے تضادات اور تعصبات
عابد خورشیدؔ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
کچھ عرصہ قبل مجھے عمران شاہد بھنڈر کے تحریر کردہ مضمون بعنوان ’’وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن‘‘ مطبوعہ ماہنامہ ’’اَدبِ لطیف‘‘ (۷۵ سالہ نمبر ، شمارہ ۱۱۔ ۱۲، نومبر+دسمبر ۲۰۱۰ء) پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ میں اِس مضمون کے سلسلے میں کچھ معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ مگر اس سے پہلے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر وزیر آغا کو اپنی ساٹھ برس پر محیط علمی و اَدبی زندگی میں قدم قدم پر مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کی اصل وجہ اُن کا علمی و اَدبی سطح کا اجتہاد تھا۔ تاریخ ، علم و اَدب میں جس کسی شاعر‘ ادیب یا مفکر نے جب جب نئے راستوں کو اختیار کرنے کی کوشش کی، مروّجہ اصولوں اور معیارات کو چیلنج کیا‘ اُسے ہمیشہ طرزِ کہن پر چلنے والوں کی جانب سے مزاحمت کاسامنا کرنا پڑا۔ نظری اور اطلاقی تنقید کے سلسلے میں ڈاکٹر وزیر آغا کے فقیدالمثال کام کی وجہ سے کئی نظریہ بند اَدبی گروہوں نے طویل عرصہ تک اُن کے خلاف محاذ آرائی جاری رکھی‘ مگر جب علمی و اَدبی سطح پر وہ اُن کا کچھ نہ بگاڑ سکے تو شخصی حوالے سے اُن پر نکتہ چینی کا آغاز کر دیا۔ تاہم ڈاکٹر وزیر آغا مخالفت کی کالی آندھیوں کے سامنے تا حیات سینہ سپر رہے۔
بڑے بوڑھے ہمیشہ یہ کہتے آئے ہیں کہ چاول کا ایک ’’دانہ‘‘ چکھنے سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ دیگ میں پکنے والی شے کا کیا حال ہے۔ لہٰذا پوری دیگ کھانے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ اسی اصول پر کاربند ہو کر میں ’’وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن (مطبوعہ اَدبِ لطیف‘ نومبر ‘ دسمبر ۲۰۱۰ء) کے مختصر جائزے تک ہی خود کو محدود رکھوں گا۔
مذکورہ بالا مضمون میں ڈاکٹر وزیر آغا کے بارے میں عمران شاہد بھنڈر کے تحریر کردہ کچھ فرمودات ملاحظہ فرمائیے:
۱۔ آغا کی اپنی فکر اَن گنت تضادات کی گرفت میں ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ آغا نے سطح سے آگے نہیں دیکھا۔ آغا مظہر سے آگے نہیں پہنچ پائے۔
(وزیر آغا اور ڈی کنسٹریشن) (ص۱۸۵)
٭٭٭