صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


ا یک بھاشا....جو مسترد کر دی گئی


مرزا خلیل احمد بیگ 

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

اُردو کا ہندی پر تقدمِ زمانی


گیان چند جین نے اپنی کتاب’ ایک بھاشا....‘ کی ’’ تمہید‘‘ میں ہی اُردو اور ہندی کے بارے میں اپنا موقف بیان کر دیا ہے اور صاف لفظوں میں ہندی کی طرف داری کا اعلان کرتے ہوئے یہ کہہ دیا ہے کہ وہ ’’ اُردو ادب کو ہندی کا پیش رو‘‘ تسلیم نہیں کرتے:

’’ یہ بالکل ضروری نہیں کہ ہم اُردو ادب کے خمیر سے بنائے گئے ہیں تو ہمارا فریضہ ہے کہ ہم اُردو ادب کو ہندی کا پیش رو قراردیں‘‘۔ ( ص ۱۴)

جین صاحب اُردو کے عالم اور سکالر ہونے کے با وجود اور اُردو ادب کے ’’خمیر‘‘ سے بنے ہونے کے باوصف اگر اس بات کو نہیں مانتے تو نہ سہی لیکن جو عالم و دانشور ہندی کے خمیر سے بنائے گئے ہیں وہ اس حقیقت کو ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ اُردو کو ہندی پر تقدمِ زمانی حاصل ہے۔ گیان چند جین نے جو ہندی کے بھی ’ گیانی‘ ہیں، ہندی ادبیات و لسانیات کے ممتاز عالم دھیریندر ورما کی کتاب ’ہندی بھاشا کا اتہاس‘ (ہندی زبان کی تاریخ) ضرور پڑھی ہوگی۔ اس کتاب کے صفحہ ۶۰ پر ذیل کی عبارت درج ہے:

’’ اَیتہاسِک دِر شٹی سے ساہتیک کھڑی بولی ہندی کی اپیکشا کھڑی بولی اُردو کا بیوہار پہلے ہونے لگا تھا‘‘۔

(تاریخی نقطۂ نظر سے ادبی کھڑی بولی ہندی کے مقابلے میں کھڑی بولی اُردو کا استعمال پہلے ہونے لگا تھا۔)

کیا جین صاحب کو اُردو کو ہندی کا پیش رو تسلیم کرنے میں اب بھی کوئی تامل ہے؟ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ دھیریندر ورما اُردو کو ہندی کی شیلی (اسلوب) یا ہندی کی تحتی زبان نہیں مانتے بلکہ وہ اُردو کے آزادانہ وجود کو تسلیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’ کھڑی بولی سے زمانۂ حال کی ادبی ہندی اور اُردو کی پیدائش ہوئی ہے‘‘ (متذکرہ کتاب ، ص ۵۶) ۔ان کا یہ بھی خیال ہے کہ ’’ قواعد کی شکلوں کے لحاظ سے ان دونوں ادبی زبانوں میں خاص فرق نہیں ہے، در حقیقت دونوں کی جڑ اور بنیاد ایک ہی ہے لیکن ادبی ماحول، ذخیرۂ الفاظ اور رسمِ خط میں دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے‘‘ (ایضاً ، ص ۶۰)۔ دھیریندر ورما دہلی میں اُردو کا وجود اس وقت سے بتاتے ہیں جب مسلمانوں نے اس شہر کو اپنا مستقر بنایا۔ وہ لکھتے ہیں:

’’بھارت ورش میں آنے پر بہت دنوں تک مسلمانوں کا کیندر دلّی رہا، اَتہہ فارسی، ترکی اور عربی بولنے والے مسلمانوں نے جنتا سے بات چیت اور بیوہار کرنے کے لیے دھیرے دھیرے دلّی کے اڑوس پڑوس کی بولی سیکھی۔ اس بولی میں اپنے وِدیشی شبد سموہ کو سوَتنتر تا پوروک ملا لینا ان کے لیے سوَ بھا وِک تھا۔ اِس پر کار کی بولی کا بیو ہار سب سے پرتھم ۔ ۔ ۔ قلعے کے شاہی فوجی بازار میں ہوتا تھا۔ اَتہہ اسی سے، دلّی کے پڑوس کی بولی کے اس وِدیشی شبدوں سے مِشرت روپ کا نام ’اُردو‘ پڑا۔ ترکی بھاشا میں اُردو شبد کا ارتھ بازار ہے‘‘۔ ( ایضاً، ص ۶۰)

(ہندوستان میں داخل ہونے پر بہت دنوں تک مسلمانوں کا مرکز دہلی رہا، لہٰذا فارسی، ترکی اور عربی بولنے والے مسلمانوں نے عوام سے بات چیت اور رابطے کے لیے دھیرے دھیرے دہلی کے آس پاس کی بولی سیکھی۔ اس بولی میں اپنے بدیسی ذخیرۂ الفاظ کو آزادانہ طور پر شامل کرلینا ان کے لیے فطری تھا۔ اس طرح کی بولی کا استعمال سب سے پہلے ۔ ۔ ۔ قلعے کے شاہی فوجی بازار میں ہوتا تھا۔ لہٰذا اسی [وجہ] سے ، دہلی کے پڑوس کی بولی کے اس بدیسی الفاظ سے آمیختہ روپ کا نام ’اُردو‘ پڑا۔ ترکی زبان میں لفظِ اُردو کے معنی بازار ہے۔)

دہلی میں مسلمان بارہویں صدی کے اواخر (۱۱۹۳ء) میں داخل ہوئے جہاں ان کا سابقہ نواحِ دہلی کی اس بولی سے پڑا جو ’کھڑی بولی‘ تھی(۱) ۔ اسی کھڑی بولی میں جب عربی فارسی (اور ترکی )الفاظ کی آمیزش ہوئی تو اس کا نام ’اُردو‘ پڑا۔ دھیریندر ورما نے اُردو کی تشکیل کے ان مراحل میں ’کھڑی بولی ہندی‘ کا کہیں ذکر نہیں کیا ہے۔ اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے داخلۂ دہلی کے وقت اور اس کے بہت دنوں بعد تک شمالی ہندوستان میں کھڑی بولی ہندی کا کہیں وجود نہ تھا۔ لیکن جین صاحب ہندی پر اُردو کے تقدمِ زمانی کو ختم کر نے کے لیے کھڑی بولی ہندی کا آغاز  ۱۱۰۰سنہِ عیسوی سے بتاتے ہیں جو محض ایک’ مفروضہ‘ہے۔

دھیریندر ورما کھڑی بولی کو اُردو کی بنیاد تسلیم کرتے ہیں اور کھڑی بولی اُردو کو کھڑی بولی ہندی سے قدیم تر مانتے ہیں۔ وہ پرانی کھڑی بولی کو ’’ ہندوی‘‘ (جو اُردو کا ایک قدیم نام ہے) کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور چودہویں صدی میں دکن میں فروغ پانے والی زبان کو بھی ’’ہندوی‘‘ کہتے ہیں۔ وہ ہندوی کو صاف لفظوں میں ’’ دکنی اُردو‘‘ کا مترادف تسلیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں :

’’ دکشن بھارت میں وِکست ہندوی اتھوا دکنی اُردو ساہتیہ کا پرارمبھ ۱۳۲۶ء میں محمد تغلق کے دکشن آکر من کے بعد ہوا۔ ہندوی کے پرارمبھک کوِی مسلمان صوفی فقیر تھے، جنھوں نے اپنے دھارمک وچاروں کے پرچار کی درشٹی سے یے رچنائیں لکھی تھیں۔ یہ ساہتیہ ابھی دیو ناگری لپی میں پرکاشِت نہیں ہوا ہے یدیپی اس کی بھاشا پرانی کھڑی بولی ہے‘‘۔ (ایضاً ، ص ۸۰)

( جنوبی ہندوستان میں فروغ پانے والے ہندوی یا دکنی اُردو ادب کا آغاز ۱۳۲۶ء میں محمد تغلق کے جنوبی حملے کے بعد ہوا۔ ہندوی کے ابتدائی شاعر مسلمان صوفی فقیر تھے جنھوں نے اپنے مذہبی خیالات کی تبلیغ کے مقصد سے یہ کتابیں تصنیف کی تھیں۔)

یہ بات نہایت قابلِ ذکرہے کہ دھیریندر ورما جو ہندی کے ایک ممتاز عالم ہیں ’ دکنی اُردو‘ کو نہ تو’دکنی ہندی‘ ( یا ’دکھنی ہندی‘) کہتے ہیں اور نہ ہی اُردو کو ہندی کی ’شیلی‘ (اسلوب) قرار دیتے ہیں۔ وہ اُردو اور ہندی دونوں زبانوں کو برابر کا درجہ دیتے ہیں۔ ان کی نظر میں ادبی کھڑی بولی کا دو زبانوں میں فروغ ہواہے، ادبی کھڑی بولی اُردو اور ادبی کھڑی بولی ہندی جن میں سے اول الذکر کو تقدمِ زمانی حاصل ہے اور آخر الذکر بعد کا ارتقا ہے۔ اصل حقیقت یہی ہے جو ہندی کے عالم و دانشور دھیریندر ورما نے بیان کی ہے لیکن اُردو سے وابستہ عالم گیان چند جین اُردو ادب کو ہندی کا پیش رو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ کیا بوالعجبی ہے!

دھیریندر ورما کے علاوہ ہندی کے دوسرے عالموں نے بھی ہندی پر اُردو کے زمانی تقدم کو تسلیم کیا ہے اور صاف لفظوں میں کہا ہے کہ انیسویں صدی سے قبل کھڑی بولی ہندی میں ادبی روایت کا فقدان تھا۔ شتی کنٹھ مشر جو بنارس ہندو یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں اپنی عالمانہ تصنیف ’ کھڑی بولی کا آندولن‘ (کھڑی بولی کی تحریک) میں لکھتے ہیں:

’’یہ سب ہوتے ہوئے بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اتر بھارت میں ۱۹ ویں شتابدی کے پورو کھڑی بولی میں گدیہ ساہتیہ کی کوئی دھارا واہک پرمپرا تھی‘‘۔ (ص ۶۲)

(یہ سب ہوتے ہوئے بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ شمالی ہندوستان میں انیسویں صدی سے قبل کھڑی بولی [ہندی] میں نثری ادب کی کوئی سلسلہ وار روایت موجود تھی۔)

یہاں’’کھڑی بولی‘‘ سے مراد کھڑی بولی ہندی ہے۔ جب کہ شمالی ہندوستان میں انیسویں صدی سے قبل کھڑی بولی اُردو میں کم از کم ۱۵ نثری کتابیں تصنیف/ترجمہ کی جا چکی تھیں جن کے نام یہ ہیں:

۱’۔ کربل کتھا‘(۳۳/۱۷۳۲ء) ازفضلِ علی فضلی، مرتبہ مالک رام اور مختار الدین احمد۔

۲’۔ قصۂ مہر افروز و دلبر‘ (۵۹۔۱۷۳۲ء) ازعیسوی خاں بہادر، مرتبہ مسعودحسین خاں۔

۳۔ شرح’ رس چندرِکا‘ (۱۷۵۲ء) از عیسوی خاں بہادر۔

۴’۔ نو طرزِ مرصع‘ (۷۵۔ ۱۷۷۴ء) از میر محمد حسین عطا خاں تحسین، مرتبہ نور الحسن ہاشمی۔

۵’۔ تفسیرِ مرادیہ‘( ۷۲/۱۷۷۱ء) از شاہ مراد اللہ انصاری۔

۶’۔ قصہ احوالِ روہیلہ‘ (۸۱۔۱۷۷۴ء) از رستم علی بجنوری۔

۷’۔ ترجمۂ قرآن‘ (۸۸/۱۷۸۷ء) از شاہ رفیع الدین۔

۸’۔ ترجمۂ قرآن‘ (۹۱/۱۷۹۰ء) از شاہ عبدالقادر۔

۹’۔ تفسیرِ رفیعی‘ [تفسیر سورۂ بقر] (۹۱/۱۷۹۰ء) از شاہ رفیع الدین۔

۱۰’۔ تفسیر القرآن‘ (۹۲/۱۷۹۱ء) از شاہ حقانی۔

۱۱’۔ عجائب القصص‘ (۹۳/۱۷۹۲ء) از شاہ عالم ثانی، مرتبہ راحت افزا بخاری۔

۱۲’۔ قصۂ ملک محمد و گیتی افروز‘ (۹۴/۱۷۹۳ء) از مہر چند کھتری مہر۔

۱۳’۔ جذبِ عشق‘ (۹۸/۱۷۹۷ء) از شاہ حسین حقیقت۔

۱۴’۔ نو آئینِ ہندی‘( ۹۹ / ۱۷۹۸ء) از مہر چند کھتری مہر۔

۱۵’۔ سلکِ گہر‘ (۱۸۰۰/۱۷۹۹ء) از انشاء اللہ خاں انشا، مرتبہ امتیاز علی خاں عرشی۔

یہ سب شمالی ہندوستان میں دستیاب انیسویں صدی سے پہلے کی اُردو کی نثری کتابیں ہیں۔ ان کے معرضِ وجود میں آنے سے بہت پہلے اُردو میں شاعری کا سلسلہ امیر خسرو (۱۲۵۳ تا ۱۳۲۵ء) کے ہاتھوں شروع ہو چکا تھا۔ اس کے بعد چودہویں صدی سے دکن میں اُردو کے سلسلہ وار شعری و نثری نمونے ملتے ہیں اور اٹھارہویں صدی کے اختتام تک شمال اور جنوب دونوں علاقوں میں اُردو ادب کا وقیع سرمایہ اکٹھا ہو جاتا ہے، جب کہ اس دور کے کھڑی بولی ہندی کے ادبی نمونے بالکل دستیاب نہیں اور اگر بعض نمونے ملتے بھی ہیں تو ان میں یا تو برج بھاشا کے نمونے شامل کر لیے جاتے ہیں یا وہ غیر مصدقہ ہوتے ہیں(۲)۔ حد تو یہ ہے کہ اُردو کے مصنفین کو بھی ہندی مصنفین کی فہرست میں شامل کرلیا جاتا ہے۔ جین صاحب نے بڑی سادہ لوحی کے ساتھ شمالی ہند کی اُردو کی مشہوراور مقبول ترین نثری داستان ’ قصۂ مہر افروز و دلبر‘ کے مصنف عیسوی خاں بہادر کو ہندی کا مصنف قرار دیا ہے۔ جب ’قصۂ مہر افروز و دلبر‘ اُردو کی تصنیف ہے تو عیسوی خاں بہادر ’’ہندی کے مصنف‘‘ (’ایک بھاشا‘....، ص ۱۴۹) کیسے ہو سکتے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جین صاحب نے اپنی کتاب کے ’’ ضمیمہ‘‘ (صفحہ ۳۰۲ تا ۳۰۴) میں ’’۱۸۰۰ء سے پہلے اُردو کی نثری کتابیں‘‘ کے تحت اُردو کتابوں کی جو فہرست دی ہے اس میں ’قصۂ مہر افروز و دلبر‘ (عیسوی خاں بہادر) کو شامل نہیں کیا ہے۔ جین صاحب سے یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اُردو کی اتنی مشہور ادبی تصنیف کو جو شمالی ہند کی طبعزاداُردو نثر کا بہترین نمونہ ہے اور جس کا سنۂ تصنیف -۱۷۳۲۵۹ء ہے، ۱۸۰۰ء سے قبل کی اُردو کی نثری کتابوں کی فہرست سے کیوں خارج کر دیا؟(۳)

جیسا کہ شتی کنٹھ مشر اور دوسرے ہندی عالموں نے بھی اس امر کو تسلیم کیا ہے کہ انیسویں صدی سے قبل کھڑی بولی ہندی میں ادبی روایت موجود نہیں تھی اور اس زبان میں نثر و نظم دونوں کا فقدان تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ۱۸۰۰ء سے قبل کھڑی بولی ہندی کا وجود ہی نہ تھا اور جب زبان ہی نہ ہو تو ادب کیسے معرضِ وجود میں آ سکتا ہے!

ہندی کے ایک ممتاز عالم چندر دھر شرما گلیری کھڑی بولی کا رشتہ پورے طور پر مسلمانوں سے جوڑتے ہیں اور کھڑی بولی کو اُردو مانتے ہیں اور اسی کھڑی بولی یعنی اُردو سے ہندی کا ارتقا بتاتے ہیں۔ اپنی کتاب ’پرانی ہندی‘ میں وہ لکھتے ہیں:

’’ ہندی گدیہ بھاشن للو لا ل کے سمے سے آرمبھ ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ پرانی ہندی گدیہ اور پدیہ کھڑے روپ میں مسلمانی ہے‘‘۔ (’پرانی ہندی‘، ص ۱۰۸۔ بحوالہ اومکار راہی، ’کھڑی بولی: سوَروپ اور ساہتیک پرمپرا‘، ص ۲۷)

(ہندی نثری زبان کا آغاز للو لال سے ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ پرانی ہندی نثر اورشاعری کھڑی بولی کی شکل میں مسلمانی ہے‘‘۔)

ہندی کے ایک اور عالم وشو ناتھ پرساد مشر کو اُردو ہندی کے لسانی مسائل سے خاص دلچسپی رہی ہے۔ انھوں نے سب سے پہلے ’ریختہ‘ کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا اور اس کے بغور مطالعے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ریختہ اور کھڑی بولی دونوں ایک ہیں، اور ان میں صرف نام کے فرق کے علاوہ کوئی اور فرق نہیں ہے۔ پھر وہ یہ کہتے ہیں کہ ریختہ ایک ’’ اسلوبِ خاص‘‘ کا نام ہے۔ اس کا ارتقا کھڑی بولی میں عربی فارسی الفاظ کی آمیزش سے ہوا ہے۔ یہی ریختہ آگے چل کر ’اُردو‘ بن گئی اور اسی کی بنیاد پر ’ہندی‘ بنائی گئی۔ اومکار راہی کے بقول:

’’انھوں نے (وشو ناتھ پرساد مشر نے) اپنے کتھن میں سجیوتا لانے کے لیے اور بھی سشکت بھاشا میں کہا کہ اُردو سے بھید کرنے کے لیے دیشی بھاشا کا نام جس میں عربی فارسی کے شبدوں کا دھڑلّے کے ساتھ پریوگ نہیں ہوتا تھا، ہندی، بھاکھا یا کھڑی بولی [ہندی] پڑ گیا‘‘۔ (دیکھیے اومکار راہی، ’کھڑی بولی‘، ص ۲۴)

(انھوں نے (وشو ناتھ پرساد مشر نے) اپنی بات میں وزن پیداکرنے کے لیے اور بھی پر زور الفاظ میں کہا کہ اُردو سے فرق پیدا کرنے کے لیے دیسی زبان کا نام جس میں عربی فارسی الفاظ کا آزادانہ استعمال نہیں ہوتا تھا، ہندی، بھاکھا یا کھڑی بولی  [ہندی] پڑ گیا۔)

انیسویں صدی کے نصفِ دوم کے ممتاز ہندی ادیب و عالم بھارتیندو ہریش چندر بھی کھڑی بولی سے اُردو ہی مراد لیتے تھے اگر چہ وہ کھڑی بولی کو اگر والوں کی بولی کہتے تھے۔ وہ اپنی کتاب ’اگر والوں کی اُتپتی‘(اگر والوں کی پیدائش) کے دیباچے میں لکھتے ہیں:

’’اِن کا ( اگر والوں کا) مکھیہ دیش پشچموتر پرانت ہے اور ان کی بولی، استری اور پُرش سب کی کھڑی بولی ارتھات اُردو ہے‘‘۔ (بحوالہ اومکار راہی، متذکرہ کتاب، ص ۲۵)

(اِن کا ( اگر والوں کا) خاص وطن شمال مغربی علاقہ ہے اور اِن کی بولی، عورت اورمرد سب کی کھڑی بولی یعنی اُردو ہے۔)

بھارتیندو کے اس قول سے جین صاحب کی معلومات میں یقیناً اضافہ ہوا ہوگا جو یہ سمجھتے ہیں کہ اُردو صرف ہندو مرد ہی بولتے ہیں اور ہندو عورتیں اس سے مبرا ہیں، نیز ’’اُردو زبان ہندو گھروں میں بیٹھک کے کمرے سے آگے نہیں بڑھی‘‘(’ایک بھاشا۔ ۔ ۔ ‘،ص ۲۸)۔ بھارتیندو ہریش چندر کھڑی بولی اور اُردو کو ایک زبان مانتے تھے۔ انیسویں صدی میں بھارتیندو کی طرح دوسرے ہندو بھی کھڑی بولی اور اُردو کو ایک ہی زبان تسلیم کرتے تھے اور حقیقت بھی یہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتیندو اور اس دور کے دوسرے بہت سے ہندو عالم اور دانشور کھڑی بولی میں ہندی شاعری کے حق میں نہ تھے کیوں کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر کھڑی بولی میں ہندی شاعری کی گئی تو وہ اُردو ہی ہو جائے گی۔ بھارتیندو خود برج بھاشا میں ہندی شاعری کے زبردست حمایتی تھے۔

ہندی عالموں کے اقوال اور معروضی حقائق کی روشنی میں یہ بات نہایت وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ کھڑی بولی ہندی اس وقت وجود میں آئی جب انیسویں صدی کی آمد آمد تھی۔ ۱۸۰۰ء میں کلکتے میں فورٹ ولیم کالج قائم ہوا اور اس کے ایک عہدے دار گلکرسٹ کی ہدایت پر وہاں کے ’’بھاکھا منشی‘‘ للوجی لال نے اُردو کو، جو پورے شمالی ہندوستان میں پہلے سے جاری و ساری تھی، بنیاد بنا کر اور اس میں سے عربی فارسی الفاظ کو نکال کر اور ان کی جگہ پر سنسکرت کے الفاظ رکھ کر دیو ناگری رسمِ خط میں لکھی جانے والی ایک نئی زبان اختراع کی۔ یہی زبان ’کھڑی بولی ہندی‘ کہلائی۔ للوجی لال نے ’پریم ساگر‘ ۱۸۰۳ء میں اسی نئی زبان میں لکھی۔(۴) فورٹ ولیم کالج کے ایک دوسرے منشی سدل مشر نے بھی اسی سال اسی زبان کا استعمال کرتے ہوئے چندراوتی کی کتھا ’ناسِکیتو پاکھیان‘ کے نام سے لکھی۔ یہ دونوں کتابیں سنسکرت سے ترجمہ کی گئی ہیں۔ ان میں جو لسانی طریقۂ کاراستعمال کیا گیا وہ ایک نئی زبان کی تعمیر کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بھارتیندو ہریش چندر نے بھی اپنی کتاب ’ ہندی بھاشا‘ میں للو جی لال کی کھڑی بولی ہندی کو ’’ نئی بھاشا‘‘ (نئی زبان) کہا ہے جب کہ اُردو اس سے کئی صدیوں پرانی زبان ہے اور اس لحاظ سے اسے ہندی پر زمانی تقدم حاصل ہے۔

اس باب کی ابتدا میں جین صاحب کی کتاب ’ ایک بھاشا ۔ ۔ ۔ ‘ سے ایک اقتباس پیش کیا گیا تھا جس میں انھوں نے اُردو ادب کو ہندی کا پیش رو تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ اُردو کا ہندی پر زمانی تقدم ثابت کرنے کے لیے میں نے یہاں ہندی ادیبوں اور دانشوروں کے چند اقوال پیش کیے ہیں جن سے یہ بات کھل کر سامنے آ تی ہے کہ اُردو زبان و ادب ہندی سے کہیں زیادہ قدیم ہے اور ہندی بہت بعد کی پیداوار ہے۔ اب جین صاحب کی اسی کتاب سے میں ایک دوسرا اقتباس نقل کرنے جا رہا ہوں جو ان کے فکری اور ذہنی تضاد کو پوری طرح اجاگر کر دے گا۔ جین صاحب اس جھوٹ کو کہ اُردو ادب ہندی کا پیش رو قرار نہیں دیا جا سکتا زیادہ دیر تک نہ چھپا سکے اور بالآخر انھوں نے اپنی متذکرہ کتاب میں اس حقیقت کا اعتراف کر ہی لیا کہ اُردو ادب نے ہندی کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا۔ وہ لکھتے ہیں:

’’بیرونی مسلمان اپنے ساتھ نہ اُردو لائے تھے نہ کھڑی بولی ۔ ۔ ۔ ہندوؤں نے کھڑی بولی کو نظر انداز کر رکھا تھا۔ مسلمانوں نے اسے پسند کرکے اس میں عربی فارسی الفاظ بڑھانے شروع کیے اور وہی کھڑی بولی کا اُردو ادب کہلایا جس نے ہندی روپ کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا‘‘۔ (ص ۱۵۸)

کیا اس قول سے اُردو کا ہندی پر تقدمِ زمانی ثابت نہیں ہوتا؟ حقیقت یہ ہے کہ اُردو کی ادبی روایات بہت پرانی ہیں اور اس اعتبار سے اُردو کوہندی پر بلا شبہ فوقیت اور زمانی تقدم حاصل ہے۔

***

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول