صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
بے زمینی
اقبال متین
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
کیوں ؟
جب سرود و رقص و نغمہ ہو گئی ہو کائنات
دل ہم آہنگی نہیں کرتا ہے کیوں ادراک سے
چاند کی چوکھٹ پہ جب جھکتی ہے تاروں کی جبیں
روح کیوں ہو جاتی ہے سرکش خداۓ پاک سے
تیز برساتوں سے جب ہوتی ہے دل کی آگ تیز
مسکراتا ہے کوئی کیوں دیدہ نمناک سے
رقص جب کرتی ہے فطرت آسمانی ساز پر
کھیلتا ہوں کیوں میں اپنے دامنِ صد چاک سے
وقتِ سجدہ بن کے کیوں مسجود آ جاتے ہیں آپ
دیکھئے آواز دیتا ہے کوئی افلاک سے
لاکھ بہلائے دلِ شاعر بہلتا ہی نہیں
تار چھیڑے جا رہے ہیں ساز بجتا ہی نہیں
٭٭٭
ٹھٹھرتے ہوئے شب گزرے گی
کیسی حسرت ہے
کوئی دستِ حنائی بڑھ کر
مجھ سے پوچھے کے اس آتش کدۂ زیست میں تم
راکھ کا ڈھیر بنے ، برف کا تودہ بھی بنے
اب میرے سینے سے لگ کر سو جاؤ
جسم کا لمس
دل و جاں کی محبت بھی اڑھا دوں تم کو
نیند ٹوٹی ہے تو کمرے میں یہی لگتا ہے
مجھ کو دفنا کے مرے چاہنے والے سب لوگ
کہیں لوٹ گئے
کوئی اس قبر پہ کتبہ ہی لگا کر جاتا
مجھ کو امید ہے دروازے پہ آہٹ ہو گی
ایک پل کے لیے تو میرے قریب آئے گا
رسمساتے ترے ملبوس کی سرگوشی سے
کوئی لوری سی مرے ذہن میں در آئے گی
نیند کس کو نہیں پیاری ہوتی
کل کسے فرصتِ اظہارِ تمنا ہو گی
رات کا درد تو بس رات کا حصہ ہو گا
کل بھی دفتر ہے
میں اک قبر سے اُٹھ کر کل بھی
دوسری قبر میں چپکے سے اتر جاؤں گا
٭٭٭
دل ہم آہنگی نہیں کرتا ہے کیوں ادراک سے
چاند کی چوکھٹ پہ جب جھکتی ہے تاروں کی جبیں
روح کیوں ہو جاتی ہے سرکش خداۓ پاک سے
تیز برساتوں سے جب ہوتی ہے دل کی آگ تیز
مسکراتا ہے کوئی کیوں دیدہ نمناک سے
رقص جب کرتی ہے فطرت آسمانی ساز پر
کھیلتا ہوں کیوں میں اپنے دامنِ صد چاک سے
وقتِ سجدہ بن کے کیوں مسجود آ جاتے ہیں آپ
دیکھئے آواز دیتا ہے کوئی افلاک سے
لاکھ بہلائے دلِ شاعر بہلتا ہی نہیں
تار چھیڑے جا رہے ہیں ساز بجتا ہی نہیں
٭٭٭
دن رات
نیچے سیلن ہےٹھٹھرتے ہوئے شب گزرے گی
کیسی حسرت ہے
کوئی دستِ حنائی بڑھ کر
مجھ سے پوچھے کے اس آتش کدۂ زیست میں تم
راکھ کا ڈھیر بنے ، برف کا تودہ بھی بنے
اب میرے سینے سے لگ کر سو جاؤ
جسم کا لمس
دل و جاں کی محبت بھی اڑھا دوں تم کو
نیند ٹوٹی ہے تو کمرے میں یہی لگتا ہے
مجھ کو دفنا کے مرے چاہنے والے سب لوگ
کہیں لوٹ گئے
کوئی اس قبر پہ کتبہ ہی لگا کر جاتا
مجھ کو امید ہے دروازے پہ آہٹ ہو گی
ایک پل کے لیے تو میرے قریب آئے گا
رسمساتے ترے ملبوس کی سرگوشی سے
کوئی لوری سی مرے ذہن میں در آئے گی
نیند کس کو نہیں پیاری ہوتی
کل کسے فرصتِ اظہارِ تمنا ہو گی
رات کا درد تو بس رات کا حصہ ہو گا
کل بھی دفتر ہے
میں اک قبر سے اُٹھ کر کل بھی
دوسری قبر میں چپکے سے اتر جاؤں گا
٭٭٭