صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


بزمِ ہم نفساں 

قدیر زماں 

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل


مغنی تبسم ۔ ۔ ۔  چیزے دیگر است


    اردو دنیا کا کوئی شخص یا ادارہ ایسا نہ ہو گا جو مغنی تبسم کی شخصیت اور کارناموں سے واقف نہ ہو۔ اُن کے تبسم کا ذکر میں کم و بیش پچاس سال سے سنتا اور پڑھتا رہا ہوں ۔ اس تبسم کے پیچھے چھپی ہوئی شخصیت کو  وا کرنے کی کوشش بہت سے احباب نے کی ہے لیکن اس کے بارے میں جو مرقع سید خالد قادری نے کھینچا ہے اُس میں کسی طرح کا اضافہ بہت مشکل ہے۔ پہلے میں اسی مرقعے کو پیش کرتے ہوئے آگے بڑھنا مناسب سمجھوں گا۔ خالد قادری لکھتے ہیں :
    ‘’اُس وقت ان (مغنی تبسم )کے لبوں پہ ایک مخصوص مسکراہٹ تھی جو بعد کے زمانوں میں بھی میرے لیے ان کی شخصیت کی پہچان رہی۔ ایک شائستہ مگر ادھوری جو لبوں پر پھیل کر بھی سمٹی ہوئی سی ہو، مجھے اچانک لیونارڈ ڈاونسی کا خیال آگیا۔ شاید وہ یہی مسکراہٹ تھی جو اس کی مشہور زمانہ تخلیق ’ مونالیزا‘ میں ایک پختہ عمر کی عورت کے ہونٹوں پر ہے۔ ایک اس درجہ پُراسرار اور معنی خیز مسکراہٹ جسے ابہام کی پرتوں سے نکال کر اس کے مفہوم و معنی سمجھنے کے لیے ایک عام انسان کو ادراک و عرفان کی کئی منزلیں طے کرنا ہوں گی۔’‘
    پچھلے چالیں برسوں سے اس تبسم کا اور اس میں ہونے والے اُتار چڑھاؤ کا مشاہدہ کرتا آ رہا ہوں  تاہم یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ میں اسے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ بہتر جانتا ہوں ۔ ان چالیس برسوں سے قبل بھی میں نے مغنی تبسم کو کبھی سرِراہ ، کبھی سلیمان اریب یا کبھی عالم خوندمیری کے ساتھ یا کبھی کسی درس گاہ میں بھی دیکھا ہے۔ پہلی بار میں نے انھیں ۱۹۵۴ء میں نظام ساگر کے کنارے اپنی بیگم اختر جہاں کے ساتھ دیکھا تھا۔ سوچا وہ اپنی بیگم کے ساتھ شاید ہنی مون پر آئے ہیں ۔ گلبرگہ اسٹوڈنٹس کاٹیج جو اُن دنوں حیدرآباد میں طلبہ کے لیے ایک مقبول اقامت خانہ تھا، اُس کی طرف سے ہم چند طلبہ پکنک پر گئے ہوئے تھے۔ مغنی صاحب سے میں اس حد تک واقف تھا کہ وہ شاعر ہیں ۔ کہیں چند نظمیں بھی پڑھی تھیں ۔ کسی پرچے کے (غالباً ’شعور‘ رہا ہو گا) مدیر بھی ہیں اور شاید کہیں پڑھاتے بھی ہیں ۔ وہ تو بعد میں پتا چلا کہ وہ اُن دنوں اے جی آفس میں یو ڈی سی ہیں ۔ شادی اور ملازمت کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ان کے والد محمد عبدالغنی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ و سب جج تھے اور بیٹا کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ تھا۔ جب تک بیٹا علاحدہ اور خود مختار زندگی نہ گزارے باپ کی سرپرستی میں سمجھا جائے گا اور مغنی صاحب نہیں چاہتے تھے کہ ان کے اپنے سیاسی نظریات کی وجہ سے اُن کے باپ پر حرف آئے۔ اختر جہاں صاحبہ حیدرآباد گرامر اسکول میں پڑھاتی تھیں ، عمر میں بڑی تھیں اور دونوں کی شادی ۱۹۵۱ء ہی میں ہو چکی تھی جب کہ مغنی تبسم ابھی کسی روزگار سے وابستہ نہ تھے۔ یہ باتیں میں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ ان واقعات کا اثر جو کہ اُن کی مرضی سے وقوع پذیر ہوئے تھے، اُن کی نفسیات پر بڑا گہرا رہا اور وہ منفی تھا۔
    اختر جہاں بڑی ہی غیر نزاعی خاتون رہی ہیں ۔ گاؤں کے محاورے کو استعمال کروں تو میرے تجربے میں وہ ایک گائے جیسی خاتون رہیں ۔ سماجی رشتوں کے جوڑ توڑ اور کسی طرح کے ہیر پھیر کا انھیں پتا ہی نہ تھا۔ والد کی رحلت کے بعد مغنی تبسم اپنے دو بھائیوں اور پانچ بہنوں کے کس طرح کفیل رہے وہی بہتر جانتے ہیں ۔ معیشت کی تگ و دو اور ساتھ ساتھ علم و ادب کی لگن میں زندگی آگے بڑھتی رہی۔ اے جی آفس سے نکلے تو کئی کالجوں کے گھاٹ کا پانی پیا۔ آخر میں ۱۹۵۷ء میں آرٹس کالج عثمانیہ یونی ورسٹی میں لکچرر کی حیثیت سے جوائن کیا اور جب ۱۹۹۰ء میں بہ حیثیت پروفیسر و صدر شعبۂ اردو وظیفہ ء حسنِ خدمت پر ملازمت سے سبکدوش ہوئے تو ادارۂ ادبیاتِ اردو سے وابستہ ہوئے، پھر اُسی کے ہو رہے جہاں ان کی خدمات نا قابل فراموش ہیں اور اُن کا وجود ناگزیر۔
    کہنے کو تو میں نے کہہ دیا کہ ابتدائی دور کے واقعات کا اثر مغنی تبسم کی شخصیت پر منفی رہا لیکن اس کا جواز پیش کرنے میں بڑی مشکل سے دوچار ہوں کہ ذراسی لغزش ہو گئی تو حقیقت سے کوسوں دور ہو جاؤں گا اور مجھ پر سراسر نا سمجھی کا الزام آئے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ مغنی تبسم کی شخصیت کے صرف دو گوشے ایسے ہیں جن تک رسائی قریب سے قریب ترین دوست کے لیے مشکل ہے۔ ایک ان کی کم گوئی اور خاموشی کی تہہ تک پہنچنا، اُس کی پیچیدگیوں کو سمجھنا اور دوسرے اُن کی جمالیاتی حِس اور اس کی گہرائی کا اندازہ لگانا۔ ان کی خاموشی اور کم گوئی نے ان کا اتنا نہیں بگاڑا جتنا اُن کی اس جمالیاتی حِس نے۔ اختر جہاں سے کبھی مغنی صاحب کو کوئی تکلیف نہیں پہنچی بلکہ ان کی اولاد دو لڑکے اور ایک لڑکی نے انھیں بڑی آسودگی عطا کی، لیکن بھلا ہو اس جمالیاتی حِس کا بُرا ہو کہ اس نے کبھی چین نہ لینے دیا۔ عادتاً مغنی چہروں پر نظریں جمانے سے تو رہے لیکن وہ اکثر حسن کی تلاش میں خلاؤں میں گھورتے رہے ہوں گے۔ ساہتیہ اکادمی کے پروگرام ’ادیب سے ملیے‘ ((Meet the Authorکے پرچے (Brochure) پر مغنی تبسم کا جو پورٹریٹ ہے اُسے دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ حسن کی تلاش میں خلاؤں ہی میں گھورتے رہے ہیں ۔ صنف نازک کے چہرے پر نظریں نہیں گاڑی جاسکتیں لہٰذا اُنھیں خلاؤں ہی میں تلاش کیجیے۔جب خلاؤں میں گھورنے کی عادت بن گئی تو کئی برس بعد انھیں خلاؤں میں ایک دن ناز صدیقی اپنے شاداب چہرے اور دراز قد کے ساتھ مغنی صاحب کو نظر آئیں ۔ پہلے تو ناز نے سوچا کہ فضاؤں میں گھورنے والے سے کیسے رسم و راہ بڑھائی جائے۔ جانے کتنی اپسراؤں کو ان آنکھوں نے گھورا ہو گا اور کتنوں کو گھائل نہ کیا ہو گا۔ پہلے تو وہ ٹھٹکیں اور جب فضاؤں کی دھند کو مغنی صاحب نے چھانٹا تو آہستہ آہستہ وہ آگے بڑھیں ۔ ذرا اور قریب ہوئیں تو ان نگاہوں کی ہمیشہ کے لیے اسیر ہو کر رہ گئیں ۔ ایک دن موت کے فرشتے نے ناگہاں انھیں اُچک لیا ورنہ خود مغنی صاحب کو پھر سے یا بار بار گھائل ہونے کی نوبت نہ آتی۔
    ذرا اس واقعے کی تفصیل بھی سن لیں کہ جب مغنی صاحب نے ناز سے عقد کا ارادہ کر لیا تو آتش نمرود میں کود پڑنے میں دیر نہیں کی۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ، دو گواہوں کی موجودگی میں قاضی نے نکاح پڑھوا لیا۔ رقیبوں کو خبر ہوئی تو یونی ورسٹی کے ارباب کو اطلاع دے دی کہ اردو کا ایک پروفیسر اپنی پہلی زوجہ کی موجودگی میں دوسری بیوی لے آیا ہے۔ سنگین سے سنگین واقعے پر بھی مغنی صاحب گھبرانے والے نہیں ۔ تھوڑی سی تشویش ضرور ہوئی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اختر جہاں یا بچوں کو دُکھ پہنچائیں ۔ چار و نا چار طلاق کا سرٹیفکٹ حاصل کرنا پڑا۔ دوبارہ ناز سے انھوں نے بینڈ باجے سے شادی رچائی۔ یونی ورسٹی سے کہا کہ تمھیں اس کی غلط اطلاع ہے۔ دیکھو ایک وقت میں ایک ہی زوجہ رکھتا ہوں ۔ گواہی اور ثبوت کی قانونی اہمیت تو ہے۔ ثبوت کی عدم موجودگی میں دشمن کچھ نہ بگاڑ سکے اور اب تو ‘’نہ تو تو رہا نہ میں میں رہا’‘ والی بات ہے۔ شاید ان ہی دنوں کی یاد نے مغنی صاحب سے وہ غزل کہلوائی جس کا مطلع ہے:
ہر  سود  سے  ہر  زیاں  سے گزرے
کس دل سے غمِ جہاں سے گزرے
اسی غزل کا ایک شعر یہ بھی ہے:
بے فیض تھی  سب  وفا  شعاری
بے کار ہی امتحاں سے گزرے
    مغنی صاحب کے جمالیاتی ذوق کی پوری داستان لکھی جائے تو شاید داستانِ امیر حمزہ بن جائے۔ اس لیے اب اس گوشے کو یہیں چھوڑتا ہوں ۔ ’تبسم‘ والی بات ادھوری رہ گئی۔ سچ پوچھیے تو مغنی صاحب کی شخصیت میں ’تبسم‘ وہ گوشہ ہے جو بارش کے پانی کی طرح صاف و شفاف ہے۔ بعض شخصیتیں اپنے تبسم اور مسکراہٹ کو کام میں لا کر اپنے احباب کو مغالطے میں رکھتی ہیں لیکن مغنی کے تبسم میں ایسی ذرا بھی کوئی پیچیدگی نہیں ہے۔ جس طرح انھیں حسین خط و خال کا چہرہ فطرت سے ودیعت ہوا ہے اُسی طرح انھیں یہ تبسم بھی فطرت ہی سے ملا ہے۔ ان کے تبسم کو میں کسی شیر خوار کے تبسم یا اُس کی مسکراہٹ کے مماثل ہی سمجھتا ہوں ، فرق صرف اتنا ہو گا کہ مغنی صاحب اپنے تبسم سے آگاہ ہوتے ہیں ۔ تبسم ہو کہ مسکراہٹ یا قہقہہ یہ تو اپنے مخاطب کو خوش دیکھنے کے لیے ہوتا ہے۔ مغنی صاحب کو کبھی کسی نے ٹھٹھا مارتے ہوئے نہیں پایا ہو گا۔ عام طور پر اُن کا قہقہہ بھی ہلکا پھلکا ہی ہوتا ہے۔ بعض وقت دوستوں کی محفل میں جب پینے پلانے کی محفل جمی ہو تو کبھی کبھی اس قہقہے کی آواز اونچی ہوسکتی ہے۔ اس میں کسی طرح کا لاگ لپیٹ قطعاً نہیں ہو گا۔ موضوع خوش کرنے والا ہویا خود مغنی صاحب پر کسی نے پھبتی کسی ہو یا پھر احباب کسی مزاحیہ گفتگو پر قہقہہ لگا رہے ہوں تو تب وہ بھی احباب کے ساتھ قہقہے میں شامل ہو جاتے ہیں کہ انھیں اپنے فرد ملت ہونے کا احساس دلائیں ۔ ابھی یاد آیا پچھلے چند دنوں کی باتیں ہیں ۔ میں نے کہا ، ‘’جناب آپ بہ یک وقت کتنے اداروں سے وابستہ رہیں گے۔ ایک ہی دن میں کہیں صدارت کر رہے ہیں ، کہیں مہمانِ خصوصی ہیں اور اُسی دن کہیں آپ کو تقریر بھی کرنی ہے۔’‘ اتنی چھوٹی سی بات پر وہ خوش ہو جائیں گے اور جواب میں ایک ہلکا سا قہقہہ سنائی دے گا۔٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول