صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


بیان: منظر، پس منظر

ڈاکٹر مشتاق احمد

مشرف عالم ذوقی کے ناول ’بیان‘ سے متعلق مضامین

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

بیان ایک زبردست المیہ۔۔ ڈاکٹر پُشکر

یہ بات اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھانے والے لوگ ہمارے سماج میں عام شریف آدمی سے زیادہ طاقتور ہو گئے ہیں۔ فساد کی پشت میں جو لوگ ہیں وہ آرام سے سینہ تانے وزراء کی کوٹھیوں، ایر کنڈیشنڈ ہوٹلوں میں عیش کرتے ہیں   اور عام آدمی کو سارا دن محنت مشقت کر کے دو جون روٹی کا انتظام کرنا ہے۔ ووٹ ایک بھدّا مذاق بن گیا ہے۔ منہ کھولنا ایک مصیبت مول لینا ہے۔ سچ کو پردے میں رکھنا ہے   اور جو جیسا چل رہا ہے اُسے سہتے رہنا ایک مجبوری بن گئی ہے۔ بُرائی اچھائی پر حاوی ہوتی جا رہی ہے   اور ایک دہشت بھرا ماحول فضا میں برقرار ہے۔ لوگوں کے آپسی رسوخ ’ہاتھ وان لیوا دیئی، کے ہو گئے ہیں۔ اپنا ہاتھی مجھے دے دو میں تمہیں اپنا کتّا دے تو رہا ہوں۔
نریندر کے بیان کو دیکھئے ___ ’’شاید یہ اِس وقت کا سچ ہے   اور تمہارے لیے مناسب بادشاہ اپنے صوبے کو بچانے کے لیے جنگ چھیڑتا ہے   اور جنگ میں مارا کون جاتا ہے ؟ صوبے کے عوام، بادشاہ کے سپاہی، راجہ کے سپہ سالار۔۔۔ایک بات یاد رکھو ہم بادشاہ نہیں ہیں ۔۔۔سپہ سالار بھی نہیں ۔۔۔ہم عوام ہیں مورچے پر شہید ہونے والے سپاہی۔‘‘ (صفحہ ۲۰۰)
ذوقی صاحب کے ’بیان‘ میں ایک بے چینی دیکھنے کو ملتی ہے جو عام آدمی کی تڑپ سے جڑی ہے۔ اس تخلیق کی سب سے بڑی خاصیت اس کی حقیقت بیانی ہے۔ ہندو ہو یا مسلمان، یہاں سبھی یکساں پریشان ہیں۔ فرقہ واریت کو وہ صاف طور پر ننگا کرتے ہیں۔
بال مکند شرما نے کہا___ یار برکت حسین۔ نئے بچّے سے پوچھو تو غالب   اور اقبال کے نام پر بغلیں جھانکے۔ کون ہیں یہ؟ میری پوتی مالو پوچھتی ہے ۔۔۔ددّو۔۔۔آپ مسلمان ہیں کیا۔۔۔آپ اردو پڑھتے ہیں ۔۔۔اردو۔۔۔مسلمان۔۔۔بچّے بھی پوچھتے ہیں مجھ سے۔ آخر مسلمانوں سے کیا ہمدردی ہے مجھے۔ کیوں اُن کی طرفداری کرتا ہوں ___ اُن کے بارے میں بُرا کیوں نہیں سننا چاہتا۔ اس کا الٹا جواب بھی ہو سکتا ہے کہ میاں ہمدردی نہیں ہونے کی وجہ کیا ہے   اور اُن کے بارے میں بُرا کیوں سننا چاہوں گا۔۔۔میاں جب برسوں سے، مدّتوں سے رہنا سہنا ایک ساتھ ایک طرح سے ہوا ہے تو پھر اُن سے خود کو کاٹنے کی بات کیسے سوچوں برکت حسین ۔۔۔اب تو ہم تم جسم کے ایک ٹکڑے ہی لگتے ہو۔ تمہیں تکلیف ہوتی ہے تو میرے دل پر چوٹ پہنچتی ہے۔ بچّے اس درد کو نہیں سمجھتے۔ بچّے اردو   اور مسلمان جانتے ہیں ۔۔۔بچّے نئی تاریخ   اور سبق جانتے ہیں۔ کل تو سارے کام اردو میں ہوتے تھے ۔۔۔
۔۔۔برکت حسین آہ کھینچتے ہیں ۔۔۔بال مکند شرما ’’جوش‘‘ میاں ۔۔۔تم سچ کہتے ہو۔۔۔ہم اردو بولتے ہیں۔ اس لیے ہم ملک کے تیسرے درجے کے شہری ہیں۔ اُنہیں حق حاصل ہے کہ ہمیں خوفزدہ کر کے ہمارے گھر کی تلاشی لے سکتے ہیں۔ قانون و قاعدے اب ہمارے لیے نہیں رہے جوش میاں ۔۔۔لگتا ہے ۔۔۔آہستہ آہستہ مسلمانوں کے لیے ملک کی تہذیب کے طور طریقے سب اُٹھتے جا رہے ہیں۔
حقیقی طور پر منّا   اور بال مکند کے دو کردار اس ناول میں ایسے ہیں جو کسی بھی حالت میں بھلائے نہیں جا سکتے۔ ایسے کردار ہر گلی، محلّوں میں موجود ہیں۔ ان کی کوئی بھی نہ سنتا ہے   اور نہ ہی پرواہ کرتا ہے۔ وہ پریشان   اور خستہ حال نظر آتے ہیں، گھٹتے ہوئے جیتے ہیں   اور آخر میں بے موت مارے جاتے ہیں۔
اب کوئی اپنے بچّوں کو اردو نہیں پڑھاتا___ ہم بھی نہیں پڑھائیں گے۔
بس آسان سا فیصلہ ۔۔۔حکم صادر ہو گیا۔ لیکن وہ خود جیسے اجنبی خیالوں والی پگڈنڈی پر سوار ہو گئے ۔۔۔وہ نرمی۔۔۔وہ شائستگی، وہ حُسن، وہ نزاکت ارے جو چاشنی اردو میں ہے ۔۔۔وہ ۔۔۔لیکن وہ کس سے کہتے ۔۔۔(صفحہ ۱۳۲)
نتیجہ یہ ہے کہ ہر آدمی پریکٹیکل ہو گیا۔ جذبہ، انسانیت، دیانت داری، آپسی میل جول سب ختم۔ علی الصباح اُٹھو   اور بھاگو، سارا دن بیل کی طرح کام کرو، شام کو گھر آؤ، کھاؤ، بستر پر مر جاؤ۔ پھر صبح وہی آمد رفت، بھاگ دوڑ، پیسہ بنانے کی مشین، انسان نہیں، روبوٹ، حکومت کوّوں   اور گدھوں کی، اور محنت کش، سیدھا شریف پڑھا لکھا   اور مہذب شہری انسان۔
یہ ناول بے حد سلجھا ہوا، سنجیدہ کوشش ہے اچھائی کو سامنے لانے کا۔ حقیقت کے سطح پر سیاست ایک ایسا کھیل ہے جو کبھی آج تک تو اچھائی کو اجاگر نہیں کر سکا ہے۔ آگے اللہ جانے۔ یہاں تو محافظ ہی نقصان پہنچانے کے فراق میں ہیں۔ کانگریس کی حکومت میں جتنے غبن (گھوٹالے ) ہوئے ہیں، اُتنے تو ملی جلی پارٹیوں کی سرکار میں بھی نہیں ہوئے۔ کون کہتا ہے کہ دنگوں   اور چھ دسمبر کا واقعہ میں کانگریس کا ہاتھ نہیں تھا۔ اصلیت بے پردہ تو ہے مگر دیکھنے والے جان بوجھ کر اُسے دیکھتے نہیں۔ کیونکہ ایسا کرنے سے ان کے آپس کی پوشیدہ خود غرضی متاثر ہوتی ہیں۔
جو بھی ہو، مصنف کو نہ کوئی آج تک روک پایا ہے نہ آئندہ روک پائے گا۔ بے باک قلم کا استعمال ہمیشہ ہوتا آیا   اور آئندہ بھی ہو گا۔
مصنف کو میری طرف سے بہت ساری نیک خواہشات   اور کامیاب کوشش پر مبارک باد۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول