صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


بیاں ہونے لگا  ہوں

حیدر قریشی

مجموعے ’’درد سمندر‘‘ کی غزلیں

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

غزلیں


خود اپنے واسطے آزارِ جاں  ہونے لگا ہوں

کسی نا مہرباں  پر مہرباں ہونے لگا  ہوں


غزل کے روپ میں جو قصہ خواں ہونے لگا ہوں

تو یوں لگتا ہے تیری داستاں ہونے لگا ہوں


کچھ عرصہ خوش گمانی بھی رہی ہے اس سے بے شک

مگر اس شوخ سے اب بد گماں ہونے لگا ہوں


مجھے معلوم ہے سلطان جابر کیا کرے گا

مگر میں کلمۂ حق ہوں ،بیاں ہونے لگا  ہوں


کسی کی ناروا پابندیوں کو توڑ کر اب

دلوں میں گونجنے والی اذاں ہونے لگا ہوں


گھٹن کب دیر تک رستہ ہوا کا روک پائی

اسے کہہ دو کہ میں پھر سے رواں ہونے لگا ہوں


مجھے دھرتی پہ ہی رہنا تھا ہر حالت میں حیدر

مگر یہ کیا ہوا کہ آسماں ہونے لگا ہوں


٭٭٭


وصل کی شب تھی اور اُجالے کر رکھے تھے

جسم و جاں سب اُس کے حوالے کر رکھے تھے


جیسے یہ پہلا اور آخری میل ہوا ہو

حال تو دونوں نے بے حا لے کر رکھے تھے


کھوج رہے تھے رُوح کو جسموں کے رستے سے

طور طریقے پاگلوں والے کر رکھے تھے


ہم سے نادانوں نے عشق کی برکت ہی سے

کیسے کیسے کام نرالے کر رکھے تھے


وہ بھی تھا کچھ ہلکے ہلکے سے میک اپ میں

بال اپنے ہم نے بھی کالے کر رکھے تھے


اپنے آپ ہی آیا تھا پھر مرہم بن کر

جس نے ہمارے دل میں چھالے کر رکھے تھے


حیدر اپنی تاثیریں لے آئے آخر

ہجر میں ہم نے جتنے نالے کر رکھے تھے


٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول