صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
بیان میرٹھی ۔ حیات اور شخصیت
تدوین
ڈاکٹر شرف الدین ساحلؔ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
بیان میرٹھی
خاندان
بیان کے آبا و اجداد، سادات کی قدیم بستی جارچہ، ضلع بلند شہر کے رہنے والے تھے۔ایسا کہا جاتا ہے کہ اس علاقے کو شہنشاہ غیاث الدین بلبن (وفات:۱۲۸۷ء) نے بیان کے مورث اعلا سید محمود کو جاگیر کے طور پر عطا کیا تھا۔ (۱)
بیان کے والد کا نام سید گوہر علی تھا، جو لوگوں میں میر صاحب کے نام سے مشہور تھے۔ ان کے والد کا نام سید کرامت علی تھا۔ بیان نے اپنے والد کے نام کا سجع کہا تھا: (۲)
بحرِ کرامت کا گوہر علی
۱۸۵۷ء کے انقلاب کے زمانے میں سید گوہر علی کے خاندان پر سات انگریزوں کے قتل کا الزام تھا۔چنانچہ اس مصیبت سے بچنے کے لیے انھوں نے اپنے آبائی وطن کو چھوڑ کر میرٹھ میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ ان کا مکان محلہ کرم علی میں شاہ نتھن کی مسجد کے قریب تھا۔ ڈاکٹر سید صفدر حسین نے مذکورہ واقعہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: (۳)
’’بلند شہر کے ضلع میں جارچہ نام کا ایک قصبہ خاصا مردم خیز خطہ تھا جہاں رضوی سادات متمول اور ذی اقتدار تھے۔ لیکن ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے دوران، وہاں کے سادات پر سات انگریزوں کے قتل کرنے کا الزام تھا۔ اس لیے ان کی املاک بحق سرکار ضبط کر لی گئی تھیں۔ اس ضبط شدہ جائیداد کا کچھ حصہ، باغپت، ضلع میرٹھ کے ایک رئیس راؤ خورشید علی خان نے اور باقی حصہ دلی کے ایک جوہری سلطان سنگھ نے خرید لیا تھا۔ تبدیلِ ملکیت کے نتیجے میں وہاں کے سادات کے پاس سوائے کاشتکاری کے کوئی اور وسیلہ معاش کا نہ تھا۔ اس لیے انھوں نے عزتِ نفس کے خیال سے اپنے آبائی وطن کو خیرباد کہہ کر قرب و جوار کے شہروں میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ ہجرت کرنے والے ان خانوادوں میں ایک گھرانا سید گوہر علی رضوی کا بھی تھا، جس کے افراد میرٹھ شہر میں اقامت گزیں ہو گئے تھے۔‘‘
سید گوہر علی کا موضع الدن، ضلع میرٹھ کے رئیس سید عمر دراز علی (ڈپٹی کلکٹر) کی صاحبزادی جہاں بانو سے عقد ہوا تھا جن کا تعلق شرفا اور علمی و ادبی خاندان سے تھا۔اس خاندان میں کئی اصحاب رئیس اور وابستۂ سرکار تھے۔سید عمر دراز علی آگرہ ، کالپی اور جھانسی میں اعلا منصب پر فائز رہے۔ انھوں نے ۱۸۶۰ء میں رحلت فرمائی۔ان کے بیٹے سید مہدی علی بھی اعلا تعلیم یافتہ تھے۔ وہ بسلسلۂ ملازمت یوپی مختلف شہروں میں سکونت پذیر رہے۔ ڈپٹی کلکٹر کے مرتبے تک پہنچ کر ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ان کا ۱۹۰۵ء میں گورکھپور میں انتقال ہوا۔ان کی تصنیف شہاب ثاقب سے ان کے علمی مرتبے کا پتہ چلتا ہے۔(۴)
سید عمر دراز علی کے بھائی سید کفایت علی ایک اچھے شاعر تھے۔ وہ تنہا اور راشد تخلص کرتے تھے۔ محکمہ انسداد ٹھگی و ڈکیتی کے محافظ دفتر و میر منشی رہے۔ بعد کو پنجاب کے ضلع کے سر رشتہ دار اور پھر پنجاب و دہلی میں میر منشی و سپرنٹنڈنٹ کمشنری رہے۔ انھوں نے ۳۳ سال کی ملازمت کے بعد ۱۸۶۸ء میں پنشن پائی۔ یکم اکتوبر ۱۸۶۹ء کو ۵۵ سال کی عمر میں وفات پائی اور میرٹھ میں دفن ہوئے۔ان کا دیوانِ اردو، کلیاتِ فرقانی کے ساتھ شائع ہو چکا ہے۔(۵)
اردواور فارسی کے جید عالم اور بلند پایہ شاعر سید احمد حسن فرقانی میرٹھی (پیدائش :۱۸۳۶ء) انھی کے بیٹے تھے۔ فرقانی غالب کے ہم عصر و ہم مجلس تھے۔ غالب اور فرقانی میں خط و کتابت بھی تھی۔ غالب کے دو خطوط ان کے نام ملتے ہیں۔انھوں نے ۴۷سال کی عمر میں ۱۴ ستمبر ۱۸۸۳ء کو وفات پائی اور میرٹھ میں اپنے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کئے گئے۔منشی سجاد حسین ریحانی (پیدائش ۱۲۶۸ھ۔۔ وفات:۱۳۰۰ھ) اور منشی کرار حسین روحانی (پیدائش:۱۲۸۱ھ) دونوں فرقانی ہی کے بیٹے تھے۔(۶)
سید گوہر علی خاصی علمی صلاحیت کے مالک تھے اور علوم متداولہ پر عبور رکھتے تھے۔ انھیں شاعری سے بھی حد درجہ مزاولت تھی۔حضرت فرقانی کو ان سے بڑی محبت تھی۔ ایک مرتبہ جب وہ میرٹھ سے اپنے آبائی وطن جارچہ تشریف لے گئے تو فرقانی نے انھیں ایک خط لکھا تھا، جس میں ان کی جدائی پر اپنے تاثرات کا اظہار کیا تھا۔ اسی خط میں ان کے متعلق یہ قطعہ بھی تھا:
ازاں روزیکہ در بخشد صدف را ابرنیسانی
نیامد در کفِ بحرِ سیادت چوں تو یک گوہر
چہ پرسی ماجرائے من کہ از رنجِ فراقِ تو
دلم چو لولو سوراخ است چوں رشتہ تنم لاغر
انشائے فرقانی کے ایک خط سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ گوہر علی نے کچھ شعر اور تضمین فرقانی کو اصلاح کی غرض سے بھیجی تھی، جسے انھوں نے درست کر کے واپس کر دیا تھا۔(۷)
سید گوہر علی کا انتقال ۸ مارچ ۱۸۹۳ء کو میرٹھ میں ہوا۔والد کی موت سے متاثر ہو کر بیان نے یہ اشعار کہے ہیں: (۹)
گوہر شہوار سے برجِ جہاں خالی ہوا
نیّرِ اوجِ شرف سے آسماں خالی ہوا
عالمِ خاکی نظر آتا ہے ویرانے کی طرح
کیا کہوں کیسے مکیں سے یہ مکاں خالی ہوا
کیوں نہ ہو تاریک عالم، دیدۂ مشتاق میں
نورِ شمعِ دودماں سے دودماں خالی ہوا
رحلتِ سالارِ لشکر سے ہوا لشکر تباہ
رہنمائے کارواں سے کارواں خالی ہوا
گلشنِ جنت ہوا، معمورِ زینت ہم صفیر
اس گلِ دستار سے ہر بوستاں خالی ہوا
اس کے چھُپتے ہی مہِ شعباں ہوا ماہِ عزا
مومنیں کو عید کا چاند اے بیاں خالی ہوا
سید گوہر علی کے آٹھ بیٹے تھے: (۱) سید اصغر حسین، (۲) سید محمد مرتضیٰ بیان یزدانی، (۳) سید یعسوب الدین، (۴) سید سلطان الحق، (۵) سید ابوالحسن، (۶) سید محمد، (۷) سید حسین شرف (۸) سید آغا علی آغا۔
ان میں سید محمد کا انتقال عین جوانی میں والد کی زندگی ہی میں ہو گیا تھا۔ بیان یزدانی، سید ابوالحسن اور سید آغا علی آغا کو چھوڑ کر باقی تمام بھائی معزز عہدوں تک پہنچے۔ سید اصغر حسین عدالت میرٹھ میں ہیڈ کلرک رہے۔ سید یعسوب الدین ضلع جالون میں امین کونچ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ سید سلطان الحق دفتر کلکٹری گورکھپور میں سپرنٹنڈنٹ ہوئے۔اپنے ماموں سید مہدی علی کے داماد تھے۔ سید حسین شرف علی گڑھ میں نائب تحصیلدار تھے۔ (۱۰)
غرض بیان کا خاندان علمی اور ادبی لحاظ سے مالا مال تھا۔ نانا اور والد پڑھے لکھے تھے۔ عربی اور فارسی پر انھیں پوری طرح دسترس حاصل تھی۔ ماموں تعلیم یافتہ اور صاحبِ فضل و کمال تھے۔تمام بھائی پڑھے لکھے تھے۔سید آغا علی آغا اور سید حسین شرف کو بھی شاعری کا شوق تھا۔ لسان الملک میں ان کا کچھ کلام شائع ہوا ہے۔ سید محمد عربی اور فارسی کے عالم تھے۔بیان کی کتاب ’’عطر مجموعۂ نعت‘‘ پر عربی زبان میں ان کی لکھی ہوئی تقریظ اس حقیقت پر شاہد ہے۔ سید ضیا الاسلام عیاں میرٹھی (پیدائش: ۱۸۹۷ء، وفات:۲۱ جنوری ۱۹۳۵ء) اس خاندان کے آخری نامور شاعر گزرے ہیں۔ یہ سلطان الحق (ف:۱۹۰۷ء) کے بیٹے اور بیان کے سگے بھتیجے تھے۔ ان کا مجموعۂ کلام ۱۹۵۶ء میں ’’کلامِ عیاں‘‘ کے نام سے سول اینڈ ملٹری پریس، راولپنڈی (پاکستان) سے شائع ہو چکا ہے۔
اس خاندان کی ایک نام لیوا رابعہ خاتون نہاں میرٹھی کا بھی پتا چلتا ہے جو راولپنڈی (پاکستان) میں مقیم تھیں۔ یہ صفی صاحب کی بیٹی ہیں۔ صفی رشتے میں بیان یزدانی کے یک جدی بھائی تھے۔ یعنی وہ کرامت علی (بیان کے دادا) کے چچا کے خاندان سے تھے۔ اسی لیے بعض تذکروں میں نہاں کو بیان کی بھتیجی کہا گیا ہے۔(۱۱) بیان کے خاندان کے لوگ ۱۹۴۷ء تک میرٹھ ہی میں آباد تھے۔ آزادی کے بعد یہ لوگ پاکستان منتقل ہو گئے اور وہیں مستقل سکونت اختیار کر لی۔
ولادت
بیان کا پورا نام سید محمد مرتضیٰ تھا۔ اردو میں بیان اور فارسی میں یزدانی تخلص کرتے تھے۔مذہباً اثنا عشری شیعی تھے۔سلسلۂ نسب حضرت امام رضاؑ سے ملتا ہے۔(۱۲) ان کی پیدائش ان کے نانا سید عمر دراز علی کے مکان پر ہوئی تھی، جواس وقت جھانسی (بندیل کھنڈ) میں ڈپٹی کلکٹر کے عہدے پر مامور تھے۔ لیکن بعد کو انھوں نے میرٹھ میں نشو و نما پائی اور زندگی کا بڑا حصہ بھی اسی شہر میں گزارا، اس لیے میرٹھی کہلائے۔(۱۳)
باوجود تحقیق بسیار بیان کی صحیح تاریخِ ولادت معلوم نہ ہو سکی۔ بعض کتب و رسائل میں صرف سالِ ولادت کے اشارے ملتے ہیں۔ ان میں بھی کافی اختلافات ہیں۔ہمارے پیشِ نظر جو ماخذ ہیں، ان کی تفصیل دیکھئے:
۱۔ خم خانۂ جاوید (جلد اول) ۱۸۴۰ء قاموس المشاہیر ۱۸۴۰ء
۲۔ مراۃ الشعرا (جلد دوم) ۱۸۴۶ء
۳۔ ماہنامہ آج کل،نئی دہلی ستمبر ۱۹۷۰ء ۱۸۵۰ء ماہنامہ آج کل،نئی دہلی اگست ۱۹۹۲ء ۱۸۵۰ء
رنگ شہادت از ڈاکٹر سید صفدر حسین ۱۸۵۰ء قندیل حرم مرتبہ ڈاکٹر سید صفدر حسین ۱۸۵۰ء
۴۔ماہنامہ العصر، لکھنو، اگست ،ستمبر۱۹۱۳ء ۱۸۵۶ء روزنامہ امروز، کراچی، ۴ستمبر۱۹۵۰ء ۱۸۵۶ء
۵۔ ماہنامہ مخزن، لاہور،مارچ ۱۹۰۴ء ۱۸۶۰ء اول،دوم اور پنجم سنِ ولادت قیاس پر مبنی ہے، ملاحظہ ہو:
(۱) ساٹھ سال کے قریب عمر پا کر ۱۹۰۰ء میں بمقام میرٹھ انتقال کیا۔ (خم خانہ جاوید)
(۲) مارچ ۱۹۰۰ء میں انتقال فرمایا اور ۵۴ برس کی عمر ہوئی۔ اس لحاظ سے تاریخ ولادت ۱۸۴۶ء ہوتی ہے۔(مراۃ الشعرا)
(۳) تقریباً چالیس سال کے سن میں ۱۳مارچ ۱۹۰۰ء کو اردو زبان کی شاعری کی صدر نشینی چھوڑ کر ہمیشہ کی تنہائی اختیار کی۔ (ماہنامہ مخزن)
یہ قیاسات مندرجہ ذیل حقائق کی روشنی میں غلط ثابت ہوتے ہیں:
(۱) سب اس بات پر متفق ہیں کہ بیان کی پیدائش ان کے نانا سید عمر دراز علی کے مکان پر ہوئی جواس وقت جھانسی میں ڈپٹی کلکٹر تھے۔ علی جواد زیدی نے فرقانی میرٹھی کے تذکرے میں لکھا ہے کہ عمر دراز علی اور ان کے بھائی کفایت علی غالباً ۱۸۴۰ء سے ۱۸۵۰ء کے مابین بسلسلۂ ملازمت آگرہ میں مقیم رہے۔ اس اثنا میں عمر دراز علی ٹرانسفر ہو کر آگرہ سے جھانسی آئے اور کفایت علی فیروز پور (پنجاب) گئے۔(۱۴)
(۲) اس بات پربھی اتفاق ہے کہ سید عمر دراز علی نے ۱۸۶۰ء میں وفات پائی۔ ان کی وفات کے بعد بیان اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ جھانسی سے میرٹھ آئے۔(۱۵)
ان حقائق کی روشنی میں بیان کا سالِ ولادت ۱۸۴۰ء، ۱۸۴۶ء اور ۱۸۶۰ء غلط ہو کر رہ جاتا ہے۔ماہنامہ العصر،لکھنو کے مقالہ نگار پیارے لال شاکر میرٹھی اور روزنامہ امروز،کراچی کے مقالہ نگار خدا بندہ نے جو سال پیدائش بتایا ہے۔ اس کی تردید خود انھیں کے بتائے ہوئے ایک واقعے سے ہوتی ہے۔ دیکھئے:
(۱) بیان بہت خوبصورت تھے اور رنگ گورا چٹا تھا۔ اس کے متعلق ایک دلچسپ واقعہ قابلِ ذکر ہے۔ غدر کے زمانے میں جب کہ امن و امان کا جنازہ ملک سے اٹھ چکا تھا سید بیان کو بعالمِ طفلی کہیں ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانا پڑا۔ اتفاق سے راستے میں باغیوں کی ایک جماعت سے مڈ بھیڑ ہو گئی۔ ان نامرادوں نے انھیں انگریز کا بچہ سمجھ کر گرفتار کر لیا اور ڈیڑھ سو روپئے لے کر چھوڑا۔(ماہنامہ العصر)
(۲) بیان بہت گورے چٹے تھے۔ ایک مرتبہ تیلنگوں نے انھیں انگریز کا بچہ سمجھ کر ۱۸۵۷ء کے ہنگامے کے زمانے میں پکڑ لیا اور ڈیڑھ سو روپئے لے کے چھوڑا۔(روزنامہ امروز)
اگر یہ واقعہ درست ہے تو مقالہ نگاروں کے بتائے ہوئے سال کے مطابق بیان کی عمر اس وقت ایک سال کی رہی ہو گی اور اس عمر میں تیلنگوں کا انھیں پکڑ لینا محال ہے۔ اس واقعے سے مخزن کے مضمون نگار کا قیاس بھی غلط ہو کر رہ جاتا ہے۔ واقعہ مذکورہ کے اعتبار سے ۱۸۵۷ء کے ہنگامے میں آج کل، رنگ شہادت اور قندیلِ حرم کے مضمون کے مطابق بیان کی عمر ۷ سال کی ہوتی ہے اور اس عمر میں تیلنگوں کا انھیں پکڑ لینا قرینِ قیاس ہے۔ لہٰذا یہ ممکن ہے کہ بیان ۱۸۵۰ء میں پیدا ہوئے ہوں۔
تعلیم و تربیت
بیان کے سوانح نگاروں نے عام طور سے یہ بات لکھی ہے کہ ان کا بچپن جھانسی اور کالپی میں نانا کے ہمراہ گزرا تھا۔ وہ نانا کے انتقال (۱۸۶۰ء) کے بعد اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ میرٹھ آئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے پائی اور اپنی خدا داد ذہانت کی بدولت بہت جلد درسی نصاب ختم کر لیا۔ بعد کو میرٹھ کے ایک شیعی عالم مرزا باقر علی بیگ سے عربی اور فارسی کی کچھ کتابیں پڑھیں۔پھر خود ہی کئی زبانوں اور علوم و فنون کا بنظرِ غائر مطالعہ کیا اور بہت جلد اپنی علمی استعداد کو مستحکم اور وسیع بنا لیا۔ اس کے ثبوت کے لیے چند اقتباسات دیکھئے:
(۱) بیان ۱۸۵۶ء میں جھانسی میں پیدا ہوئے، چار سال کی عمر میں شفیق نانا کا سایہ اٹھ گیا لیکن دور اندیش باپ نے ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے کر اسے کماحقہٗ، انجام تک پہنچانے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا۔ سید گوہر علی ایک قابل بزرگ تھے اور جیسا کہ قدیم زمانے میں شریف خاندانوں کا عام دستور تھا وہ پڑھے لکھے تھے اور علومِ مشرق میں اچھی دستگاہ رکھتے تھے۔ سید بیان کی ابتدائی تعلیم انھوں نے خود کی اور جب تعلقاتِ ملازمت کی وجہ سے وہ اس کام سے معذور ہوئے تو مرزا باقر علی بیگ نے جو میرٹھ میں فرقہ شیعہ کے پیش نماز تھے، سید بیان کی تعلیم کی تکمیل کرائی۔(ماہنامہ العصر لکھنو، اگست،ستمبر ۱۹۱۳ء)
(۲) ان کے والد گوہر علی بڑے لائق شخص تھے اس لیے بعض ابتدائی درسی کتابیں انھیں سے پڑھیں۔ پھر کچھ روز میرٹھ کے ایک شیعہ عالم مرزا باقر علی بیگ سے درس لیا۔(روزنامہ امروز کراچی، ۴ ستمبر ۱۹۵۰ء،ص:۷)
(۳) بیان ۱۸۶۰ء تک جب کہ ان کے نانا کا انتقال ہوا جھانسی اور کالپی وغیرہ میں مقیم رہے اور تقریباً دس سال کی عمر میں اپنے خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ میرٹھ آ کر سکونت پذیر ہو گئے تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی تھی۔ اس کے بعد میرٹھ کے مشہور عالم دین مولانا باقر علی بیگ سے مروجہ درسی کتب پڑھی تھیں۔(قندیل حرم مرتبہ ڈاکٹرسید صفدر حسین)
اسی بات کو الفاظ کے الٹ پھیر کے ساتھ کچھ اور لوگوں نے بھی بیان کے تذکرے میں دہرایا ہے لیکن امان اللہ خان شیروانی کے مضمون:بیان یزدانی میں ان کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں یہ مفید اضافے ملتے ہیں:(۱۶)
بیان یزدانی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی تھی۔ ان کے خاندان میں بھی بڑے عالم فاضل موجود تھے۔ عربی کی تعلیم انھوں نے شمس العلما قاری عباس حسین اور مولوی جعفر علی قاری سے حاصل کی۔ بیان نے اپنی قابلیت زیادہ تر ذاتی مطالعہ سے بڑھائی۔
میرے نزدیک یہ ادھوری سچائیاں ہیں۔ میری تازہ تحقیق کے مطابق بیان اپنے نانا سید عمر دراز علی کے انتقال (۱۸۶۰ء) کے بعد دیگر افراد خاندان کے ساتھ میرٹھ آئے۔ اس واقعہ کے دو سال بعد ۱۸۶۲ء میں سید کفایت علی تنہا (والد سید احمد حسن فرقانی) پنجاب سے منتقل ہو کر دہلی آئے جہاں وہ ۱۸۶۸ء تک کمشنر دہلی کے میر منشی رہے۔ انشائے فرقانی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس زمانے میں سید کفایت علی نے سید عمر دراز علی کے اہل و عیال کو بھی اپنے پاس دہلی بلوا لیا تھا اور وہ انھی کے ساتھ رہتے تھے۔ علی جواد زیدی کے مضمون :سید احمد حسن فرقانی میرٹھی میں جگہ جگہ سید مہدی علی ابن سید عمر دراز علی کی دہلی میں ان کے ساتھ رہنے کی شہادتیں ملتی ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ۱۸۶۲ء سے ۱۸۶۸ء تک بیان کا نانہال دہلی میں تھا۔ میرا خیال ہے کہ جب سید کفایت علی نے اپنے بھائی سید عمر دراز علی کے اہل و عیال کو دہلی بلوایا تو ان کے ساتھ بیان بھی دہلی آئے اس لیے کہ وہ انھی کے ساتھ پلے بڑھے تھے۔ ان کی مزید تعلیم و تربیت سید کفایت علی، سید احمد حسن فرقانی اور سید مہدی علی کی نگرانی میں دہلی میں ہوئی۔ یہ بات میں اس بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ تمام تذکرہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ بیان نے میرٹھ کے ایک شیعی عالم مرزا باقر علی بیگ سے تعلیم پائی تھی۔ یہ وہ بزرگ ہیں جن سے فرقانی کے گہرے مراسم تھے اور وہ دہلی کے رہنے والے تھے انھوں نے بعد کو میرٹھ میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ علی جواد زیدی، فرقانی کے دہلی کے احباب کا ذکر کرتے ہوئے اپنے مضمون میں ایک جگہ لکھتے ہیں:(۱۷)
’’دلی میں کوئی مولوی مرزا باقر علی بیگ بھی تھے۔ ان سے بھی (فرقانی کے) مراسم تھے۔ غالباً انھوں نے بعد میں میرٹھ میں ہی قیام اختیار کر لیا تھا۔‘‘
اس ابتدائی تعلیم کی تحصیل کے بعد بیان نے عربی و فارسی کی اعلا تعلیم شمس العلما قاری عباس حسین اور مولوی قاری سید جعفر علی سے حاصل کی تھی جیسا کہ امان اللہ خاں شروانی نے اپنے مضمون میں لکھا ہے۔یہ دونوں بزرگ بھی دہلی کے رہنے والے تھے۔ان سے بھی فرقانی کے گہرے تعلقات تھے۔ کافی تلاش کے بعد بھی قاری عباس حسین کے بارے میں معلومات فراہم نہ ہو سکی۔ البتہ مولوی قاری سید جعفر علی کے انتقال (۱۸۹۶ء) سے متاثر ہو کر بیان نے جو پُر درد طویل مرثیہ لکھا ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ موصوف اپنے وقت کے جید عالم اور نیک صفت انسان تھے۔اس مرثیے کے دو بند کے چند اشعار دیکھئے:(۱۸)
شمسِ مبیں حضرتِ جعفر علی
شمعِ یقیں حضرتِ جعفر علی
قبلۂ دیں، کعبۂ اسلام کے
رکنِ رکیں حضرتِ جعفر علی
انجمنِ علمِ شریعت میں تھے
صدر نشیں حضرتِ جعفر علی
مشرق و مغرب میں اندھیرا ہوا
آج نہیں حضرتِ جعفر علی
نائبِ مہدی نہ رہا خاک پر
خاک پڑی گردشِ افلاک پر
قرأت و تجوید کے قلزم تھے آپ
دہر میں سیارۂ ہشتم تھے آپ
علمِ الٰہی کے سمٰوات پر
نیرِ اعظم شہہِ انجم تھے آپ
بحرِ محیطِ دو جہاں علم تھا
منبعِ تعلیم و تعلم تھے آپ
ناشرِ آیاتِ الٰہی تھے لب
رافعِ رایاتِ شہِ قم تھے آپ
تیرہ جہاں ہے وہ گئے ہات سے
کوچ کیا خضر نے ظلمات سے
ان تفصیلات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بیان نے دہلی میں اپنے وقت کے جید علما سے اکتسابِ فیض کیا تھا۔ان کے اردو اور فارسی کلام سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ انھیں مختلف فنون میں کامل دستگاہ تھی۔ فارسی اور عربی، حدیث،فقہ، منطق، فلسفہ، تصوف، ہیئت اور نجوم سب کا علم ماہرانہ تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭